پاکستان کی ایک عدالت نے حکم دیا ہے کہ وہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کے خاندان کو ان سے جیل میں ملاقات کی اجازت دے۔
شکیل آفریدی کو ان اطلاعات کے منظرعام پر آنے کے بعد مئی 2011ء میں گرفتار کیا گیا تھا کہ انھوں نے القاعدہ کے ایبٹ آباد میں روپوش رہنما اسامہ بن لادن کی شناخت کی تصدیق کے لیے امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی مدد کی تھی۔
تاہم انھیں کالعدم تنظیموں کے ساتھ روابط کے الزام میں قبائلی علاقوں میں رائج قوانین کے تحت 33 سال قید کی سزا سنائی گئی جس میں بعد ازاں دس سال کی تخفیف کر دی گئی۔
شکیل آفریدی کے وکیل نے گزشتہ اکتوبر میں پشاور ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ حکام جیل میں شکیل آفریدی کے خاندان کو ان سے ملاقات کی اجازت نہیں دے رہے۔
بدھ کو عدالت عالیہ نے اس پر فیصلہ سناتے ہوئے صوبائی حکومت کو یہ اجازت دینے کا حکم دیا۔
ڈاکٹر شکیل آفریدی نے اسامہ بن لادن کی شناخت کی تصدیق کے لیے ایبٹ آباد کے علاقے بلال ٹاؤن میں ایک حفاظتی ٹیکوں کی ایک جعلی مہم چلائی تھی۔ اسامہ بن لادن کو دو مئی 2011ء کو امریکی اسپیشل فورسز نے ایک خفیہ آپریشن کر کے ہلاک کر دیا تھا۔
بعض امریکی قانون ساز شکیل آفریدی کو اس بنا پر ہیرو قرار دیتے ہیں کہ انھوں نے دنیا کے انتہائی مطلوب دہشت گرد کی شناخت میں مدد فراہم کی اور اسی وجہ سے وہ پاکستان سے شکیل آفریدی کو رہا کرنے کا کہتے آئے ہیں۔
تاہم پاکستان کا موقف ہے کہ شکیل آفریدی کا معاملہ عدالت میں ہے اور اس کے مستقبل کا فیصلہ عدالت ہی کرے گی۔