اسلام آباد —
پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور مختلف سیاسی و سماجی حلقوں نے اسلامی نظریاتی کونسل کی ان سفارشات کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے جس میں حکومت کو ملکی قوانین میں کم عمری کی شادی پر پابندی اور کسی بھی مرد کو دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینے کی شرط ختم کرنی کی تجاویز دی گئی ہیں۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بدھ کو ایک بیان میں ان سفارشات کی مذمت کرتے ہوئے اسے خواتین کے حقوق کے منافی قرار دیا۔
بیان کے مطابق ایک ایسے وقت جب خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ان سے اظہار یکجہتی کا عزم ظاہر کیا گیا، ملک میں حکومت انتہا پسندوں کے سنگین خطرے اور تھر میں انسانی المیے کا سامنا کر رہی ہے، اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے ایسی سفارشات کا سامنا آنا کئی سوالوں کو جنم دیتا ہے۔
تنظیم نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے ان سفارشات کے سامنے ہتھیار نہ ڈالے بصورت دیگر وہ خواتین کے حقوق کے دفاع کا فریضہ انجام نہیں دے سکے گی۔
اسلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی ادارہ ہے جو پارلیمان کو اسلامی نکتہ نظر سے قوانین میں تبدیلی یا قانون سازی کے لیے مشورہ دینے کا مجاز ہے۔
رواں ہفتے کونسل کے سربراہ مولانا شیرانی نے ایک اجلاس کے بعد کہا تھا کہ کم عمری کی شادی پر پابندی غیر اسلامی قرار دی جائے اور مسلمان مرد کو دوسری شادی کرنے کے لیے پہلی بیوی سے اجازت درکار نہیں۔ ان کے بقول اسلامی تعلیمات کے مطابق کم عمری کی شادی کی ممانعت نہیں ہے۔
خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ایک غیر سرکاری تنظیم شرکت گاہ کی عہدیدار فوزیہ وقار نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان بین الاقوامی کنونشن میں یہ تسلیم کر چکا ہے کہ 18 سال سے کم عمر میں شادی بچوں کی صحت کے لیے نقصان دہ ہے جب کہ سفارشات ملک کے مسلم فیملی لا سے بھی متصادم ہیں۔
’’ وہ مسلم فیملی لا کو چیلنج کر رہےہیں اور وہ جو قانون پاس ہوا تھا وہ ملک کے سرکردہ مذہبی علما کی مشاورت اور اتفاق رائے سے منظور کیا گیا تھا۔۔۔ اب اگر وہ یہ بات کررہے ہیں تو یہ ہمارے آئین کی خلاف ورزی ہے۔‘‘
متحدہ قومی موومنٹ کی سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ ان کے خیال ملک کی تمام خواتین ان سفارشات کی مخالفت ہی کریں گی کیونکہ یہ ان کے حقوق پر نقب زنی کے مترادف ہے۔
’’ میں سمجھتی ہوں کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے ارکان مردوں کو خوش کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے لیے مزید آسانیاں پیدا ہوں کہ انھوں نے چار شادیاں کرنی ہوں تو آرام سے کر لیں۔ ۔ ۔ میں سمجھتی ہوں کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ قانون سازی کرتے وقت یہ بھی سامنے رکھے کہ خواتین کیا چاہتی ہیں۔‘‘
اسلامی نظریاتی کونسل کے ایک رکن حافظ طاہر اشرفی نے سامنے آنے والی تنقید پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ابھی کونسل سے صرف تجاویز دی ہیں اور کوئی بات فی الوقت حتمی نہیں۔
’’ ابھی تو صرف اس پر بات چیت ہو رہی ہے اور کے تمام پہلوؤں پر بات ہورہی ہے جب کونسل کوئی حتمی رائے دے گی پھر اس پر بات ہوسکتی ہے اور اب جو تنقید یا بات چیت ہو رہی ہے تو جب حتمی سفارشات سامنے آئیں گی تو ان پر ردعمل کرنا مناسب ہوگا۔‘‘
پاکستان میں انسانی حقوق خصوصاً خواتین کے حقوق کے منافی واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جن کے تدارک کے لیے قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر موثر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے ایسے واقعات ایک معمول بن چکے ہیں۔ ایسے میں اسلامی نظریاتی کونسل کی تازہ سفارشات نے ملک کے متعدل اور خصوصاً آزاد خیال حلقوں میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بدھ کو ایک بیان میں ان سفارشات کی مذمت کرتے ہوئے اسے خواتین کے حقوق کے منافی قرار دیا۔
بیان کے مطابق ایک ایسے وقت جب خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ان سے اظہار یکجہتی کا عزم ظاہر کیا گیا، ملک میں حکومت انتہا پسندوں کے سنگین خطرے اور تھر میں انسانی المیے کا سامنا کر رہی ہے، اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے ایسی سفارشات کا سامنا آنا کئی سوالوں کو جنم دیتا ہے۔
تنظیم نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے ان سفارشات کے سامنے ہتھیار نہ ڈالے بصورت دیگر وہ خواتین کے حقوق کے دفاع کا فریضہ انجام نہیں دے سکے گی۔
اسلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی ادارہ ہے جو پارلیمان کو اسلامی نکتہ نظر سے قوانین میں تبدیلی یا قانون سازی کے لیے مشورہ دینے کا مجاز ہے۔
رواں ہفتے کونسل کے سربراہ مولانا شیرانی نے ایک اجلاس کے بعد کہا تھا کہ کم عمری کی شادی پر پابندی غیر اسلامی قرار دی جائے اور مسلمان مرد کو دوسری شادی کرنے کے لیے پہلی بیوی سے اجازت درکار نہیں۔ ان کے بقول اسلامی تعلیمات کے مطابق کم عمری کی شادی کی ممانعت نہیں ہے۔
خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ایک غیر سرکاری تنظیم شرکت گاہ کی عہدیدار فوزیہ وقار نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان بین الاقوامی کنونشن میں یہ تسلیم کر چکا ہے کہ 18 سال سے کم عمر میں شادی بچوں کی صحت کے لیے نقصان دہ ہے جب کہ سفارشات ملک کے مسلم فیملی لا سے بھی متصادم ہیں۔
’’ وہ مسلم فیملی لا کو چیلنج کر رہےہیں اور وہ جو قانون پاس ہوا تھا وہ ملک کے سرکردہ مذہبی علما کی مشاورت اور اتفاق رائے سے منظور کیا گیا تھا۔۔۔ اب اگر وہ یہ بات کررہے ہیں تو یہ ہمارے آئین کی خلاف ورزی ہے۔‘‘
متحدہ قومی موومنٹ کی سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ ان کے خیال ملک کی تمام خواتین ان سفارشات کی مخالفت ہی کریں گی کیونکہ یہ ان کے حقوق پر نقب زنی کے مترادف ہے۔
’’ میں سمجھتی ہوں کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے ارکان مردوں کو خوش کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے لیے مزید آسانیاں پیدا ہوں کہ انھوں نے چار شادیاں کرنی ہوں تو آرام سے کر لیں۔ ۔ ۔ میں سمجھتی ہوں کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ قانون سازی کرتے وقت یہ بھی سامنے رکھے کہ خواتین کیا چاہتی ہیں۔‘‘
اسلامی نظریاتی کونسل کے ایک رکن حافظ طاہر اشرفی نے سامنے آنے والی تنقید پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ابھی کونسل سے صرف تجاویز دی ہیں اور کوئی بات فی الوقت حتمی نہیں۔
’’ ابھی تو صرف اس پر بات چیت ہو رہی ہے اور کے تمام پہلوؤں پر بات ہورہی ہے جب کونسل کوئی حتمی رائے دے گی پھر اس پر بات ہوسکتی ہے اور اب جو تنقید یا بات چیت ہو رہی ہے تو جب حتمی سفارشات سامنے آئیں گی تو ان پر ردعمل کرنا مناسب ہوگا۔‘‘
پاکستان میں انسانی حقوق خصوصاً خواتین کے حقوق کے منافی واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جن کے تدارک کے لیے قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر موثر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے ایسے واقعات ایک معمول بن چکے ہیں۔ ایسے میں اسلامی نظریاتی کونسل کی تازہ سفارشات نے ملک کے متعدل اور خصوصاً آزاد خیال حلقوں میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔