رسائی کے لنکس

'پانی کا ضیاع نہ رکا تو بحران دور نہیں'


ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی اور اس کی آبی ضروریات کے تناظر میں ماہرین اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ نہ صرف پانی کے ضیاع کو روکنے بلکہ اسے ذخیرہ کرنے کے لیے چھوٹے، درمیانے اور بڑے ڈیم بنانا بھی ضروری ہے۔

پاکستان میں حکومتی ذمہ داران کا کہنا ہے کہ اگر ملک میں پانی کے استعمال کے موجودہ طریقے کو تبدیل اور اس کے ضیاع کو نہ روکا گیا تو آبی بحران دور نہیں ہے۔

ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی اور اس کی آبی ضروریات کے تناظر میں ماہرین اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ نہ صرف پانی کے ضیاع کو روکنے بلکہ اسے ذخیرہ کرنے کے لیے چھوٹے، درمیانے اور بڑے ڈیم بنانا بھی ضروری ہے۔

سرکاری تحقیقاتی ادارے ’پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز‘ کے چیئرمین ڈاکٹر محمد اشرف نے وائس آف امریکہ سے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’’اگر ہمارے پانی کے ذرائع وہی رہتے ہیں، ہمارا اسٹائل پانی کے استعمال کرنے کا وہی رہتا ہے، مس منیجمینٹ بھی وہی رہتی ہے، آبادی جیسے بڑھتی جا رہی ہے تو ایک وقت آئے گا کہ یہ بحران ہو سکتا ہے۔‘‘

اُن کا کہنا تھا کہ زیرِ زمین پانی کے استعمال میں اضافے سے پانی کی سطح نیچے جا رہی ہے اور پانی کا معیار بھی خراب ہو رہا ہے۔

’’ہمارے پاس جو پانی بارش کی صورت میں دریاؤں میں آتا ہے اس کو ہمیں زیادہ سے زیادہ محفوظ کرنا ہے۔ دوسرا پانی استعمال کرنے کی عادات جو ہیں، ان کو ہم نے تبدیل کرنا ہے۔۔۔۔ آپ کو تبدیل کرنا پڑے گا۔ جب آپ اپنے طریقے کو تبدیل کریں گے تو ہم اس قابل ہوں گے کہ جو کمی آئے گی اس کو ہم برداشت کر لیں۔‘‘

ڈاکٹر محمد اشرف نے کہا کہ نہ صرف شہری آبادی میں اضافے کے سبب پانی کی ضروریات بڑھ رہی ہیں بلکہ اُن کے بقول 2025ء تک ملک کی زرعی ضروریات کے لیے بھی پانی کی طلب مزید بڑھ جائے گی۔

’’تمام شہروں میں پینے کا جو پانی ہے اس کے اوپر ایک بڑا دباؤ آ رہا ہے۔ تو اس وقت جیسے جیسے ہماری ضروریات بڑھتی جا رہی ہیں، زیرِ زمین پانی کی سطح نیچے جا رہی ہے جیسے جیسے پانی نیچے جا رہی ہے۔ اس کی مقدار اور کوالٹی دونوں خراب ہوتی جا رہی ہیں۔‘‘

اُن کا کہنا تھا کہ زراعت کے شعبے میں بھی جدید ٹیکنالوجی کو استعمال میں لاتے ہوئے پانی کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر محمد اشرف کا کہنا تھا کہ پانی کی اہمیت اور اس کے ضیاع کو روکنے کے لیے اس وقت جو مہم چلائی جا رہی ہے، وہ نا کافی ہے۔

’’یہ پانی کے استعمال کرنے کی عادات اتنی آسانی سے تبدیل نہیں ہوتیں۔ اس کے لیے آپ کو بہت زیادہ وسیع مہم چلانے کی ضروت ہے۔ آپ کو مناسب ٹیرف لگانے کی ضرورت ہے۔ پانی جو آپ دیتے ہیں اس کو میٹرڈ کر کے دینے کی ضرورت ہے۔‘‘

اُن کا کہنا تھا کہ پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیم بنانے کی بھی ضرورت ہے۔

’’پانی کا ایک قطرہ آپ کے سسٹم سے باہر نہیں جانا چاہیے۔ جو ڈیم ہیں، آبی ذخیرے ہیں، وہ آپ کی ضرورت ہے اور رہے گی۔ چونکہ وقت کے ساتھ ساتھ آبادی بڑھتی جائے گی، آپ کی ضروریات بڑھتی جائیں گی۔‘‘

پاکستان میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک میں فی کس پانی کی دستیابی لگ بھگ ایک ہزار مکعب فٹ ہے جبکہ 1951ء میں یہ مقدار پانچ ہزار مکعب فٹ سے زیادہ تھی۔

حکام کے مطابق اس کی وجہ آبادی میں تیزی سے اضافہ اور ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کی کمی ہے۔

XS
SM
MD
LG