جنوب مشرقی ایشیا سے لے کرایشیا، افریقہ اور یورپ تک چین کا ’ون بیلٹ، ون روڈ‘ منصوبہ انتہائی جدید کاریڈورز، پورٹس، پاور پلانٹس اور صنعتی انفرااسٹرکچر کے ساتھ پھیلا ہوا ہے۔ صنعتی انفرااسٹرکچر زکا تو گویا یہاں جال بچھا ہوا ہے۔ اس منصوبے سے65 ممالک کو ایک ٹریلین ڈالر سے زائد کا مالی فائدہ اور ترقی ہونے کا امکان ہے۔
لیکن، اس نوعیت کا بڑا اور پھیلا ہوا منصوبہ ایک ایسے نازک وقت میں جب دنیا ماحولیاتی تبدیلیوں کو محدود کرنے کے درپہ ہے، اس طرح کا بڑا اور پھیلا ہوا منصوبہ ماحولیاتی تبدیلی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
شاہراہ ریشم یا سلک روڈ کے ساتھ تعمیر ہونے والے ’ون بیلٹ، ون روڈ‘ منصوبے میں فوسل فیول استعمال ہوگا، جو ماحول کے لئے نقصان دہ ہے۔
پرانی شاہراہ ریشم کی طرح نیا منصوبہ بھی سڑکوں اور سمندری گزرگاہوں کے نیٹ ورک پر مشتمل ہے، جس کا مقصد تجارت کو فروغ دینا، ٹرانسپورٹ کی سہولتوں کو بہتر بنانا ہے۔
’انٹی گریٹیڈ ریجنل انفارمیشن نیٹ ورکس‘ کے مطابق، چین پاکستان اکنامک کاریڈور جس کی مالیت 62 بلین ڈالر ہے، ’ون بیلٹ ون روڈ‘ منصوبے کا اہم حصہ ہے اور اس میں شامل بحیرہٴ عرب کی گوادر پورٹ اسٹریٹیجک لحاظ سے بہت اہمیت رکھتی ہے۔
گوادر کی بندرگاہ اور پاکستان کے ساحل کو چین کے علاقے سنکیانگ سے ملانے والی سڑکوں کی ترقی سے چین کو امید ہے کہ اسے دہرے فوائد حاصل ہوں گے۔ پہلا شپنگ میں اضافہ اور دوسرا جنوبی چین کے میری ٹائم روٹس پرپائے جانے والے تناؤ میں کمی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، گوادر پورٹ کے آپریشنل ہونے کے بعد چین موجودہ وقت سے آدھے وقت میں سعودی عرب سے تیل درآمد کرنے کے قابل ہوجائے گا۔ وہ سعودی عرب سے 16 فیصد تیل سے درآمد کرتا ہے۔
’گریسنز پیک انوسٹمنٹ بینک‘ کے چیئرمین اور چیف ایگزیکٹو آفیسر ہنری ٹل مین کا کہنا ہے کہ ’’اس وقت ایک بیرل تیل، چین پہنچنے میں پچیس دن لگتے ہیں۔ گوادر پورٹ فعال ہونے کے بعد یہ وقت آدھا رہ جائے گا۔‘‘
چین کے پاکستان سے متعلق منصوبے کے ماحولیات پر اثرات کے حوالے سے تضادات پائے جاتے ہیں۔ سی پیک کا ’بلوپرنٹ ری نیوایبل پروجیکٹس‘ سے ہم آہنگ تو ہے، لیکن اس میں کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس کا اہم کردار ہے۔ پاکستانی پروجیکٹ میں فوسل فیول کی گردش شامل ہے جو چین کی معیشت کے لئے بہت اہم ہے۔
’جرمن انسٹی ٹیوٹ فور انٹرنیشنل اینڈ سیکورٹی افیئرز‘ کی ماحولیاتی پالیسی اور بین الاقوامی تجارت کی ماہر، سوزن ڈروایج کے بقول، ’’میرا نہیں خیال کہ ون بیلٹ ون رڈو منصوبہ چین کے پیرس معاہدے کے تحت کئے گئے وعدوں سے مطابقت رکھتا ہے۔‘‘
چین کی این جی او، ’گلوبل انوائمنٹل انسٹی ٹیوٹ‘ کے تجزئیے کے مطابق، ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے 25 ملکوں میں2016 کے اختتام تک چین کے کوئلے سے چلنے والے 240 پاور پروجیکٹس کام کر رہے تھے، جبکہ ایسے 25 دیگر منصوبے پائپ لائن میں ہیں۔
کوئلے سے چلنے والے دنیا بھر کے منصوبوں میں سے12.66فیصد ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا حصہ ہیں۔ 114 پلانٹ پہلے ہی کام کر رہے ہیں جن میں4.5 فیصد کوئلہ جلتا ہے۔ چین کے کوئلے کے منصوبوں کے ساتھ ساتھ قابلِ تجدید توانائی کے پروجیکٹس بھی ون بیلٹ اینڈ روڈ میں شامل ہیں۔
چین کو اپنے ملک کی حد تک یہ احساس ہوگیا ہے کہ ’فوسل فیول‘ پر انحصار خطرناک ہے۔ گزشتہ 30 سال کے دوران چین کی ترقی میں کاربن کا بے دریغ استعمال ہوا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چین کاربن خارج کرنا والا سب سے بڑا ملک بن گیا اور اسے پانی کے بحران اور قلت کا سامنا کرنا پڑا۔
حالیہ برسوں میں چین نے اپنی ہوا اور زمین کو صاف رکھنے کی غرض سے قابلِ تجدید توانائی کی صلاحیتوں میں اضافہ کیا ہے، اور اب ’کلین انرجی‘ کی ٹیکنالوجی اور مہارت برآمد کرکے منافع حاصل کر رہا ہے۔