پاکستان میں عہدیداروں کا کہنا ہے کہ حکومت چاہتی ہے کہ ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، بھارت گیس پائپ لائن منصوبے (ٹیپی) کو جلد مکمل کیا جائے۔
حکام کے مطابق اس منصوبے پر کام رواں سال دسمبر سے شروع کر دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ رواں ہفتے ترکمانستان کے ایک وفد نے اسلام آباد کا دورہ کیا تھا اور وزیراعظم نواز شریف سمیت حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقاتیں کی تھیں۔
یہ چار ممالک اس منصوبے پر طویل عرصے سے مذاکرات کر رہے ہیں مگر انتظامی مسائل اور افغانستان میں بدامنی کے باعث اس پر کام شروع نہیں ہو سکا۔
اُدھر تیل اور گیس کی نعمت سے مالامال ترکمانستان نے اعلان کیا ہے کہ سرکاری گیس کمپنی ’ترکمان گیس‘ ایک کنسورشیم کی قیادت کرے گی جو سابق سوویت ریاست سے 1,800 کلومیٹر طویل پائپ لائن تعمیر کرے گا۔
اس پائپ لائن کے ذریعے افغانستان، پاکستان اور بھارت تک گیس پہنچائی جائے گی۔
اس ضمن میں رواں ہفتے اشک آباد میں ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت پر مشتمل ایک خصوصی کمیٹی کا ایک اجلاس بھی ہوا۔
’ترکمان گیس‘ کے عہدیدار کے مطابق اس فیصلے کا یہ مطلب نہیں کہ غیر ملکی کمپنیاں اس منصوبے کا حصہ نہیں بن سکتیں جس کی لاگت 10 ارب ڈالر کے قریب ہے۔
اس سے قبل مغربی کمپنیوں مثلاً شیورون، ایکسون موبائل اور ٹوٹل کو اس پائپ لائن کے کنسورشیم کے ممکنہ طور سربراہ بنانے کی اطلاعات سامنے آئیں تھیں۔
قبل ازیں اس منصوبے کا تخمینہ سات ارب ڈالر لگایا گیا تھا۔
پاکستان میں حالیہ برسوں کےدوران توانائی کا بحران شدت اختیار کرتا چلا گیا ہے۔ پاکستان کہہ چکا ہے کہ وہ اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دیگر ملکوں سے توانائی کی درآمد کے منصوبوں کی تکمیل میں سنجیدہ ہے۔
ترکمانستان سے درآمد کی جانے والی قدرتی گیس کے بڑے حصے سے بھارت اور پاکستان میں توانائی کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے میں مدد ملے گی۔ ان دونوں ملکوں میں توانائی کی ضروریات میں 2030ء تک دو گنے اضافے کا امکان ہے۔
امریکہ بھی ٹیپی گیس پائپ لائن منصوبے کے لیے اپنی حمایت کا اعلان کرچکا ہے۔