رسائی کے لنکس

زیادتی کے واقعات میں اضافے کی بڑی وجہ کمزور قانونی نظام


پارلیمان کو وزارت قانون اور حقوق انسانی کی طرف سے آگاہ کیا گیا ہے گزشتہ دو برسوں میں ان کے پاس جنسی زیادتی کے 615 واقعات رپورٹ ہوئے تاہم اس دوران ایسے واقعات کی تعداد 3000 ہزار سے بھی زائد ہے

گزشتہ چند سالوں میں پاکستان میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے غیر معمولی قانون سازی کی گئی مگر انسانی حقوق کی تنظیموں اور ماہرین کے مطابق خواتین پر ہونے والے تشدد کے واقعات میں کوئی خاطر خواہ کمی نہیں آئی۔

حال ہی میں پارلیمان کو وزارت قانون اور حقوق انسانی کی طرف سے آگاہ کیا گیا ہے گزشتہ دو برسوں میں ان کے پاس جنسی زیادتی کے 615 واقعات رپورٹ ہوئے تاہم اس دوران ایسے واقعات کی تعداد 3000 ہزار سے بھی زائد ہے جن میں سے زیادہ تر صوبہ پنجاب میں پیش آئے۔ اسی طرح گھریلو تشدد کے آٹھ سو سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے۔

قانون سازوں نے منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کا فوجداری انصاف کا نظام انتہائی کمزور ہے جس کے باعث اب تک جنسی زیادتی جیسے سنگین جرم پر بھی کسی کو سزاء نہیں ہوسکی اور خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافے کی یہ بنیادی وجہ ہے۔

حزب اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی نفیسہ شاہ کا کہنا تھا کہ خواتین سے زیادتی یا دیگر تشدد کے واقعات کی موثر اور فعال تحقیقات کے لیے پولیس کو فرنزک لیبارٹری جیسی جدید سہولیات فراہم کی جانی چاہیں۔

’’ہمارے نظام کی بنیاد شخصی شہادت پر ہے جبکہ ریپ جیسے واقعات میں آزادانہ، سائنسی شواہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ زیادتی کا شکار ہونے والی عورت خود، اس کا جسم ایک ثبوت ہے۔ اگر وہاں سے شواہد حاصل کرلیے جائیں تو مجرم تک آسانی سے پہنچا جا سکتا ہے۔‘‘

انھوں نے کہا کہ چند ملکی قوانین میں ترامیم سے بھی خواتین پر تشدد کے واقعات میں کمی ممکن ہے۔

’’کچھ قوانین میں سقم ہے جیسے کہ قصاص و دیت۔ کیونکہ خواتین پر تشدد میں خاندان والے ملوث ہوتے ہیں اور اس کے قانون کے تحت خاندان کے پاس اختیار ہے کہ وہ قتل کی صورت میں معاملہ حل کریں تو اس سے مسئلہ بنتا ہے۔‘‘

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے بھی حال ہی ٕمیں اس شرعی قانون کے غلط استعمال کا نوٹس لیتے ہوئے حکومت سے اس بارے میں جواب طلب کیا ہے۔ قانونی ماہرین اور مذہبی شخصیات کا کہنا ہے کہ قانون کے غلط استعمال کی صورت میں عدالت کے پاس خون بہا کے معاہدے کو کالعدم کرنے کا حق ہے۔

صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہورمیں حال ہی میں ایک پانچ سالہ بچی سے اجتماعی زیادتی کے بعد مجرم اسے ایک ہسپتال کے باہر چھوڑ گئے۔ مقامی ذرائع ابلاغ میں اس واقعے کی خبر پرحکومت نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے مجرموں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا۔

حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قانون ساز تہمینہ دولتانہ کہتی ہیں کہ جنسی زیادتی سے متعلق ملکی قانون ’’بہت سخت‘‘ ہے اس لیے اس میں تبدیلی کی گنجائش نہیں۔

’’اگر قانون کے مطابق درست اقدامات کئے جاتے ہیں تو ایسے واقعات جلد کم ہوجائیں گے۔ پھر بحیثیت ماں ہمیں اپنے بچوں کا خیال رکھنا ہے۔ یہ نہیں کہ ہمارے بچے کہیں جارہے ہوں اور ہمیں پتہ ہی نہیں۔ (اب) پانچ سال کی بچی تو ماں کی پروٹکشن میں ہونی چاہیے (تھیَ)۔‘‘

پاکستان مسلم لیگ (ق) کی رکن قومی اسمبلی عطیہ عنایت اللہ کہتی ہیں کہ ریاست کی جانب سے فرسودہ اور غیر منصفانہ جرگہ اور پنچائیت کے نظام کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

’’معاشرہ پدر شاہی ہے اور سوچ میں، ثقافت میں، غیر اسلامی رسومات میں کوئی تبدیلی نہیں آرہی۔ نا ہی قانون لاگو ہورہا ہے۔ چاہے پولیس ہو یا ذیلی عدلیہ وہاں بھی اینٹی ویمن ہے معاشرہ۔ تو جب تک خواتین خود نہیں کھڑی ہوتیں۔ مرد نے کیوں معاشرہ بدلنا ہے جس میں وہ خواتین پر طرح طرح کے تشدد کرتا ہے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ خواتین سے جنسی زیادتی کے واقعات کو انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں سنا جانا چاہیے تاکہ ایک محدود وقت کے اندر ان پر فیصلہ ہو سکے۔

قانون سازوں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ زیادہ سے زیادہ خواتین کی ہر سطح پر قانون اور پالیسی سازی میں شمولیت سے معاشرتی تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں۔

سرکاری اندازوں کے مطابق پاکستان کی 18 کروڑ سے زائد کی آبادی کا لگ بھگ نصف خواتین پر مشتمل ہے اور پارلیمان میں اب ان کی 30 فیصد نمائندگی ہے۔
XS
SM
MD
LG