پاکستان میں امریکی سفارت خانے کے نائب سربراہ رچرڈ ہوگلینڈ نے کہا ہے کہ نیٹو سپلائی لائن کی بحالی کے فیصلے کے بعد پاک امریکہ باہمی اعتماد کی بحالی اور سمجھوتوں کا ایک نیا دور شروع ہوا ہے جس نے دونوں ملکوں کو مل کر کام کرنے کا ایک موقع فراہم کیا ہے۔
اسلام آباد میں جمعہ کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ نیٹو افواج کے لیے پاکستان کے راستے رسد کی بحالی دونوں ملکوں کے درمیان کئی ماہ تک خاموشی سے جاری رہنے والے مذاکراتی عمل کا نتیجہ ہے جس نے باہمی اعتماد کی بحالی میں بھی مدد دی ہے۔
اُنھوں نے نیٹو قافلوں پر پاکستان کی جانب سے اضافی محصولات وصول نہ کرنے کے فیصلے کو بھی سراہا۔
’’میرے خیال میں یہ اعلیٰ ظرفی، مثبت اور ایک خوش آئندہ اقدام ہے جس کے لیے وہ پاکستان کے ممنون ہیں کیونکہ اس سے خطے میں استحکام اور آئندہ دو سال کے دوران افغانستان سے امریکی فوجیوں اور ساز و سامان کے انخلا کے عمل میں مدد ملے گی‘‘۔
رچرڈ ہوگلینڈ کا کہنا تھا کہ اتحادی افواج کے لیے رسد کی ترسیل کسی تحریری معاہدے کے نتیجے میں بحال نہیں ہوئی بلکہ یہ سلسلہ نومبر میں سلالہ چوکیوں پر حملے کے بعد جہاں سے ٹوٹا تھا وہیں سے دوبارہ شروع کیا گیا ہے۔
’’یہ نا صرف امریکہ بلکہ نیٹو سے منسلک دیگر ممالک کے لیے آنے والے برسوں میں مفید ثابت ہوگا جس سے افغانستان سمیت خطے میں استحکام آئے گا جس کی پاکستان کو بھی اشد ضرورت ہے‘‘۔
خیال رہے کہ پاکستان کے راستے نیٹو افواج کو رسد کی بندش کی وجہ سے متبادل راستے سے ترسیل پر امریکہ اور نیٹو ممالک کو دو گنا سے زیادہ خرچ کرنا پڑ رہا تھا۔
رچرڈ ہوگلینڈ نے اعتراف کیا کہ پاک امریکہ تعلقات کی مکمل بحالی میں ابھی وقت لگے گا مگر اس جانب پیش رفت کا آغاز ہو گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان اس وقت بھی کئی اختلافی امور ہیں جن کا حل مل جل کر تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
اُدھر واشنگٹن میں پاکستانی سفیر شیری رحمٰن نے بھی اعتراف کیا ہے کہ ان کے ملک اور امریکہ کے درمیان انسداد دہشت گردی سے متعلق بعض اُمور پر اختلافات موجود ہیں جنہیں دور کرنے اور دیگرمعاملات پر وسیع البنیاد مذاکرات شروع کرنے کی ضرورت ہے۔
انھوں نے رائٹرز نیوز ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نیٹو رسد کی بحالی نے دوطرفہ اختلافی امور کے حل کے لیے دروازہ کھولا ہے اور پائیدار تعلقات کے لیے دونوں ملک اس کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
پاکستان میں غیر جانبدار مبصرین بھی جہاں نیٹو سپلائی بحال کرنے کے فیصلے کا خیر مقدم کر رہے ہیں وہیں جواباً امریکہ کو خصوصاً ڈرون حملوں کے حوالے سے پاکستان کی سالمیت کا انتہائی حد تک ادراک کرنے کی ضرورت پر بھی زور دے رہے ہیں۔
روزنامہ ڈان نے اس موضوع پر اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ اگر دونوں ممالک اس نئے موقع کو صحیح معنوں میں بروئے کار لائیں تو غیر فعال تعلقات بحال کرنے میں مدد مل سکتی ہے جو بالآخر خطے کو درپیش سلامتی کے مسائل کے حل میں بھی معاون ثابت ہوں گے۔
’’درحقیقت، موجودہ حالات میں پاکستان کے پاس ایک اچھا موقع ہے کہ وہ اس تاثر کو زائل کرے جس کے تحت اسے خطے میں امن کے لیے ایک رکاوٹ تصور کیا جاتا ہے۔‘‘
اسلام آباد میں جمعہ کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ نیٹو افواج کے لیے پاکستان کے راستے رسد کی بحالی دونوں ملکوں کے درمیان کئی ماہ تک خاموشی سے جاری رہنے والے مذاکراتی عمل کا نتیجہ ہے جس نے باہمی اعتماد کی بحالی میں بھی مدد دی ہے۔
اُنھوں نے نیٹو قافلوں پر پاکستان کی جانب سے اضافی محصولات وصول نہ کرنے کے فیصلے کو بھی سراہا۔
’’میرے خیال میں یہ اعلیٰ ظرفی، مثبت اور ایک خوش آئندہ اقدام ہے جس کے لیے وہ پاکستان کے ممنون ہیں کیونکہ اس سے خطے میں استحکام اور آئندہ دو سال کے دوران افغانستان سے امریکی فوجیوں اور ساز و سامان کے انخلا کے عمل میں مدد ملے گی‘‘۔
’’میرے خیال میں یہ اعلیٰ ظرفی، مثبت اور ایک خوش آئندہ اقدام ہے جس کے لیے وہ پاکستان کے ممنون ہیں کیونکہ اس سے خطے میں استحکام اور آئندہ دو سال کے دوران افغانستان سے امریکی فوجیوں اور ساز و سامان کے انخلا کے عمل میں مدد ملے گی‘‘۔رچرڈ ہوگلینڈ
رچرڈ ہوگلینڈ کا کہنا تھا کہ اتحادی افواج کے لیے رسد کی ترسیل کسی تحریری معاہدے کے نتیجے میں بحال نہیں ہوئی بلکہ یہ سلسلہ نومبر میں سلالہ چوکیوں پر حملے کے بعد جہاں سے ٹوٹا تھا وہیں سے دوبارہ شروع کیا گیا ہے۔
’’یہ نا صرف امریکہ بلکہ نیٹو سے منسلک دیگر ممالک کے لیے آنے والے برسوں میں مفید ثابت ہوگا جس سے افغانستان سمیت خطے میں استحکام آئے گا جس کی پاکستان کو بھی اشد ضرورت ہے‘‘۔
خیال رہے کہ پاکستان کے راستے نیٹو افواج کو رسد کی بندش کی وجہ سے متبادل راستے سے ترسیل پر امریکہ اور نیٹو ممالک کو دو گنا سے زیادہ خرچ کرنا پڑ رہا تھا۔
رچرڈ ہوگلینڈ نے اعتراف کیا کہ پاک امریکہ تعلقات کی مکمل بحالی میں ابھی وقت لگے گا مگر اس جانب پیش رفت کا آغاز ہو گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان اس وقت بھی کئی اختلافی امور ہیں جن کا حل مل جل کر تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
اُدھر واشنگٹن میں پاکستانی سفیر شیری رحمٰن نے بھی اعتراف کیا ہے کہ ان کے ملک اور امریکہ کے درمیان انسداد دہشت گردی سے متعلق بعض اُمور پر اختلافات موجود ہیں جنہیں دور کرنے اور دیگرمعاملات پر وسیع البنیاد مذاکرات شروع کرنے کی ضرورت ہے۔
انھوں نے رائٹرز نیوز ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نیٹو رسد کی بحالی نے دوطرفہ اختلافی امور کے حل کے لیے دروازہ کھولا ہے اور پائیدار تعلقات کے لیے دونوں ملک اس کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
پاکستان میں غیر جانبدار مبصرین بھی جہاں نیٹو سپلائی بحال کرنے کے فیصلے کا خیر مقدم کر رہے ہیں وہیں جواباً امریکہ کو خصوصاً ڈرون حملوں کے حوالے سے پاکستان کی سالمیت کا انتہائی حد تک ادراک کرنے کی ضرورت پر بھی زور دے رہے ہیں۔
روزنامہ ڈان نے اس موضوع پر اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ اگر دونوں ممالک اس نئے موقع کو صحیح معنوں میں بروئے کار لائیں تو غیر فعال تعلقات بحال کرنے میں مدد مل سکتی ہے جو بالآخر خطے کو درپیش سلامتی کے مسائل کے حل میں بھی معاون ثابت ہوں گے۔
’’درحقیقت، موجودہ حالات میں پاکستان کے پاس ایک اچھا موقع ہے کہ وہ اس تاثر کو زائل کرے جس کے تحت اسے خطے میں امن کے لیے ایک رکاوٹ تصور کیا جاتا ہے۔‘‘