پاکستان کے لیے امریکہ کے فل برائیٹ اسکالر شپ منصوبے کے تحت 180 طلبا و طالبات کا ایک نیا گروپ اعلیٰ تعلیم کے لیے رواں ماہ امریکہ روانگی کی تیاریوں میں ہے۔ ان طالب علموں کا تعلق پاکستان کے چاروں صوبوں کی 57 جامعات سے ہے۔
امریکہ جانے والے ان طالب علموں کے اعزاز میں جمعہ کو اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے نے ایک خصوصی الوداعی تقریب کا انعقاد کیا جس میں انھیں میزبان ملک کی ثقافت اور دیگر معلومات سے متعارف کرایا گیا۔
امریکہ کا فل برائیٹ اسکالر شپ پروگرام اس وقت دنیا میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا پروگرام ہے جس کے تحت طالب علموں کو امریکی درس گاہوں میں حصول تعلیم کے لیے مالی معاونت فراہم کی جاتی ہے۔ 2005ء سے اب تک لگ بھگ 1100 پاکستانی اس منصوبے سے مستفید ہو چکے ہیں۔
امریکہ جانے والے طالب علموں کے نئے گروپ میں 45 فیصد طالبات ہیں اور اسلام آباد میں منعقدہ تقریب کے اختتام پر انھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ وہ امریکہ میں قیام کے دوران اپنے ملک کے حقیقی تشخص کو اجاگر کرنے اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں گے۔
فل برائیٹ اسکالر شپ منصوبے کی پاکستان میں نگران تنظیم ’یونائٹیڈ اسٹیٹس ایجوکیشنل فاؤنڈیشن‘ کی سربراہ ریٹا اختر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس منصوبے کا مقصد عوامی رابطوں کے ذریعے پاکستان اور امریکہ کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے۔
’’یہاں (پاکستان میں) بہت کم امریکن آتے ہیں اس لیے لوگوں کو نہیں پتہ کہ امریکہ کیسا ہے۔ بدقسمتی سے یہاں ہم زیادہ امریکیوں کو آج کل نہیں بلا سکتے اس لیے (جب پاکستانی) وہاں جاتے ہیں تو ان پتہ چلتا ہے کہ امریکہ ایسا نہیں جیسا کہ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے۔ امریکہ میں بھی پاکستان کے بارے میں غلط فہمیاں بہت ہیں اس لیے دونوں ملکوں کے طالب ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو انھیں پتہ چلتا ہے کہ پاکستانی اعتدال پسند لوگ ہیں‘‘۔
امریکہ جانے والی طالبات میں کراچی کی ژالہ سرحدی بھی شامل ہیں۔ ’’بڑی جھجک ہوتی ہے کہ وہاں ہمیں لوگ کیسے دیکھیں گے لیکن اتنے سالوں سے لوگ (امریکہ) جا رہے ہیں تو میرے خیال میں تعلقات بہتر ہی ہو رہے ہیں ان میں کوئی خرابی نہیں آ رہی ہے‘‘۔
اس گروپ میں بینائی سے محروم صائمہ حفیظ کو فل برائیٹ اسکالر شپ پروگرام کے تحت اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ جانے کا موقع ملا ہے۔
’’یہاں کی جو بھی مثبت باتیں ہیں وہ ہم وہاں جا کر بتا سکتے ہیں اور وہاں سے واپسی پر یہاں اپنے ہم وطنوں کو بتا سکتے ہیں کہ (امریکی شہریوں) کو رویہ کتنا دوستانہ ہے‘‘۔
طالب علموں کے تبادلے کے اس منصوبے کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ امریکہ کے فل برائیٹ اسکالر شپ پروگرام کے تحت اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے والے پاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد اپنے ملک میں مختلف شعبوں میں خدمات سر انجام دے رہی ہیں جن میں پاکستان کی 14 یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز بھی شامل ہیں۔
امریکہ جانے والے ان طالب علموں کے اعزاز میں جمعہ کو اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے نے ایک خصوصی الوداعی تقریب کا انعقاد کیا جس میں انھیں میزبان ملک کی ثقافت اور دیگر معلومات سے متعارف کرایا گیا۔
امریکہ کا فل برائیٹ اسکالر شپ پروگرام اس وقت دنیا میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا پروگرام ہے جس کے تحت طالب علموں کو امریکی درس گاہوں میں حصول تعلیم کے لیے مالی معاونت فراہم کی جاتی ہے۔ 2005ء سے اب تک لگ بھگ 1100 پاکستانی اس منصوبے سے مستفید ہو چکے ہیں۔
امریکہ جانے والے طالب علموں کے نئے گروپ میں 45 فیصد طالبات ہیں اور اسلام آباد میں منعقدہ تقریب کے اختتام پر انھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ وہ امریکہ میں قیام کے دوران اپنے ملک کے حقیقی تشخص کو اجاگر کرنے اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں گے۔
فل برائیٹ اسکالر شپ منصوبے کی پاکستان میں نگران تنظیم ’یونائٹیڈ اسٹیٹس ایجوکیشنل فاؤنڈیشن‘ کی سربراہ ریٹا اختر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس منصوبے کا مقصد عوامی رابطوں کے ذریعے پاکستان اور امریکہ کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے۔
’’یہاں (پاکستان میں) بہت کم امریکن آتے ہیں اس لیے لوگوں کو نہیں پتہ کہ امریکہ کیسا ہے۔ بدقسمتی سے یہاں ہم زیادہ امریکیوں کو آج کل نہیں بلا سکتے اس لیے (جب پاکستانی) وہاں جاتے ہیں تو ان پتہ چلتا ہے کہ امریکہ ایسا نہیں جیسا کہ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے۔ امریکہ میں بھی پاکستان کے بارے میں غلط فہمیاں بہت ہیں اس لیے دونوں ملکوں کے طالب ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو انھیں پتہ چلتا ہے کہ پاکستانی اعتدال پسند لوگ ہیں‘‘۔
امریکہ جانے والی طالبات میں کراچی کی ژالہ سرحدی بھی شامل ہیں۔ ’’بڑی جھجک ہوتی ہے کہ وہاں ہمیں لوگ کیسے دیکھیں گے لیکن اتنے سالوں سے لوگ (امریکہ) جا رہے ہیں تو میرے خیال میں تعلقات بہتر ہی ہو رہے ہیں ان میں کوئی خرابی نہیں آ رہی ہے‘‘۔
اس گروپ میں بینائی سے محروم صائمہ حفیظ کو فل برائیٹ اسکالر شپ پروگرام کے تحت اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ جانے کا موقع ملا ہے۔
’’یہاں کی جو بھی مثبت باتیں ہیں وہ ہم وہاں جا کر بتا سکتے ہیں اور وہاں سے واپسی پر یہاں اپنے ہم وطنوں کو بتا سکتے ہیں کہ (امریکی شہریوں) کو رویہ کتنا دوستانہ ہے‘‘۔
طالب علموں کے تبادلے کے اس منصوبے کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ امریکہ کے فل برائیٹ اسکالر شپ پروگرام کے تحت اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے والے پاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد اپنے ملک میں مختلف شعبوں میں خدمات سر انجام دے رہی ہیں جن میں پاکستان کی 14 یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز بھی شامل ہیں۔