رسائی کے لنکس

’’جنگ سے متاثرہ علاقوں میں عام پاکستانیوں کی ہلاکت سنگین مسئلہ ہے‘‘


کرس روجرز
کرس روجرز

غیر سرکاری امریکی تنظیم’’ کیمپین فارانوسنٹ وِکٹم (سوک) نے جمعرات کو اسلام آباد میں اپنی جائزہ رپورٹ کا اجرا کیا ہے جو مقامی تنظیموں کی مدد سے ایک سال کی تحقیق اور تشدد سے متاثر ہونے والے ڈیڑھ سو سے زیادہ افراد یا ان کے اہل خانہ سے انٹرویوز کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں گذشتہ ایک سال کے دوران دہشت گردانہ حملوں اورعسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائیوں اور مبینہ امریکی ڈرون حملوںمیں بڑی تعداد میں عام شہری ہلاک ہوئے۔

تنظیم کا کہنا ہے کہ ان واقعات میں ہلاک یا زخمی ہونے والوں کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہے لیکن بعض علاقوں میں امدادی اداروں اور صحافیوں کو رسائی نہ ہونے کے باعث آزاد ذرائع سے ان کی تصدیق تقریباً نا ممکن ہے جبکہ سرکاری طور پر شہری ہلاکتوں کا تذکرہ نہ ہونے کے برابرا ہے۔

امریکی غیر سرکاری تنظیم نے اپنی رپورٹ میں اس امر پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے کہ شہری ہلاکتوں جیسے سنگین معاملے پرمبینہ طور پر امریکی اور پاکستانی حکام خاص طور پر عالمی برادری کی طرف سے خاطر خواہ توجہ نہیں دی جا رہی۔

جائزے میں کہا گیا ہے کہ مسلح تصادم میں ہلاک یا زخمی ہونے والے افراد کا پورا خاندان عدم استحکام کا شکار ہو جاتا ہے خاص طور پر اگر متاثر ہونے والا شخص گھر کا واحد کفیل ہو۔ جبکہ وہ افراد جن کے گھر لڑائی کے دوران تباہ ہو جاتے ہیں وہ اپنی زندگی کے کل اثاثے سے محروم ہونے کے بعد گھر سے بے گھر ہو جاتے ہیں اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہوتا۔

تنظیم کے نمائندے کرس روجرز نے الزام عائد کیا کہ سکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں یا ڈرون حملوں کی کارروائیوں میں جو لوگ ہلاک یا زخمی ہو تے ہیں انہیں یا ان کے گھر والوں کی اکژیت کو کسی قسم کی امداد نہیں ملتی اور جن متاثرین سے اس کا وعدہ کیا جاتا ہے انھیں بھی امداد کے حصول میں بے حد دشواری ہوتی ہے۔

انھوں نے متنبہ کیا کہ مسلح تصادم میں بے گناہ شہریوں کی ہلاکت غصے اور بدلے کے جذبات کو جنم دیتی ہے جس کے نتیجے میں متاثرین کے ہتھیار اٹھانے کے امکانات یقیناً موجود ہوتے ہیں اور یوں عسکریت پسندی کو ہوا مل سکتی ہے۔

’’جنگ سے متاثرہ علاقوں میں عام پاکستانیوں کی ہلاکت سنگین مسئلہ ہے‘‘
’’جنگ سے متاثرہ علاقوں میں عام پاکستانیوں کی ہلاکت سنگین مسئلہ ہے‘‘

رپورٹ کے مطابق سال 2010 کے دوران پاکستان بھر خاص طور پر فاٹا اور خیبر پختون خواہ میں صرف دہشت گردانہ حملوں میں ہی دو ہزار سے زیادہ بے گناہ شہری مارے گئے اور یہ تعداد اسی مدت کے دوران افغانستان میں ہونے والی شہری ہلاکتوں سے زیادہ ہے۔

امریکی غیر سرکاری تنظیم کی طرف سے امریکی اور پاکستانی حکومت کے علاوہ شدت پسندوں پر زور دیا گیا ہے کہ لڑائی کے دوران جنگی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے نہتے شہریوں کی زندگیوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ اقوام متحدہ سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ عام شہریوں کے ہلاک یا زخمی ہونے کے واقعات کی نگرانی اور تحقیق کے لیے طریقہ کار وضع کرے ۔

پاکستان میں امریکی ڈرون حملے ہمیشہ سے ایک متنازع کارروائی رہے ہیں اور پاکستانی حکومت اس پر اپنا احتجاج بھی درج کروا چکی ہے لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کے ان کارروائیوں میں اہم عسکریت پسندوں کی ہلاکت بھی ہوئی .جبکہ پاکستانی فوج کی کارروائیوں میں عام شہریوں کی ہلاکت کے ایک واقعہ پر اس سال فوج کے سربراہ کی طرف سے معذرت کی گئی تھی اوریہ ہدایت کی گئی تھی کہ اس طرح کو واقعات دوبارہ رونما نا ہوں۔

XS
SM
MD
LG