پاکستان کا کہنا ہے کہ امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کے بغیر نہیں جیت سکتا
پاکستان نے ہمسایہ ملک افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کی حمایت جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ تاہم اُس کا کہنا ہے کہ یہ جنگ اُس کی مدد کے بغیر نہیں جیتی جا سکتی۔
یہ بات اسلام آباد میں پاکستانی سفیروں کی تین روزہ کانفرنس کے اختتام پر پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہی ہے جس میں افغانستان کے بارے میں نئی امریکی پالیسی کا جائزہ لیا گیا۔
امریکی صدر ٹرمپ نے گزشتہ ماہ افغانستان کے بارے میں نئی امریکی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان پر تنقید کی تھی اور پاکستان پر الزام لگایا تھا کہ وہ طالبان اور حقانی نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کو پناہ دے رہا ہے جس سے افغانستان میں استحکام کیلئے امریکی کوششیں متاثر ہوئی ہیں اور امریکی فوجیوں پر حملے بھی ہوئے ہیں۔
ان الزامات کے نتیجے میں امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی تھی۔
سفیروں کی کانفرنس کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائیندوں سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا :
’’اس بارے میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم امریکہ کے ساتھ تعلقات جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ تاہم یہ تعلقات پاکستان کے اپنے مفاد کے مطابق ہوں گے۔ ہم باہمی احترام کی بنیاد پر تعلقات چاہتے ہیں۔‘‘
اُنہوں نے ایک بار پھر اس الزام کو مسترد کیا کہ پاکستان اُن دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہا ہے جو افغانستان میں حملے کرتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی خلاف جنگ میں پاکستان نے بہت زیادہ جانی اور مالی قربانیاں دی ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ واشنگٹن میں رہنے والے لوگ شاید ان قربانیوں سے پورے طور پر آگاہ نہیں ہیں۔ وہ شاید اس خطے کے حالات کو مکمل طور پر نہیں جانتے۔
خواجہ آصف نے امریکہ سے کہا کہ وہ پاکستان کی قربانیوں کا احترام کرے۔ اُنہوں نے کہا کہ افغانستان میں بین الاقوامی فوجوں کی ناکامی کیلئے پاکستان کو قربانی کا بکرہ بنانے سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہوں گے۔ خواجہ آصف نے مزید کہا کہ امریکہ کو چاہئیے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے تجربے سے فائدہ اُٹھائے کیونکہ امریکہ یہ جنگ پاکستان کو علیحدہ کرنے یا اسے مورد الزام ٹھہرانے سے جیت نہیں سکتا۔
صدر ٹرمپ نے پاکستان پر دہشت گردوں کی پشت پناہی کا الزام لگاتے وقت یہ نہیں بتایا کہ وہ دہشت گردوں کو اپنی سرزمین سے نکالنے کے لئے پاکستان کو کیسے مجبور کرے گا۔
امریکی ذرائع ابلاغ نے متوقع اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سفارتی اور اقتصادی دباؤ بڑھانے اور پاکستان کے اندر ڈرون حملوں میں اضافے کا ذکر کیا ہے۔ تاہم پاکستانی وزیر خارجہ نے کسی ایسے خفیہ اقدامات کے بارے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم اپنے علاقے کا بھر پور دفاع کریں گے اور ہم قومی غیرت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ اُنہوں نے اُمید ظاہر کی کہ امریکہ ایسے اقدامات سے اجتناب کرے گا۔
خواجہ آصف نے تسلیم کیا کہ پورے پاکستان سے دہشت گردوں کے مکمل خاتمے میں کچھ وقت لگے گا۔ اُنہوں نے کہا کہ 1980 کی دہائی کے دوران ہونے والے افغان جہاد کے کلچر کو ختم کرنا ہو گا۔ اُنہوں نے کہا کہ یہ جہاد اُس وقت امریکہ نے پیدا کیا تھا اور اب وہ اسے یکسر تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
2009 میں اُس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے کانگریس میں سماعت کے دوران بتایا تھا کہ افغانستان میں قابض سوویت فوجوں کو باہر نکالنے کیلئے سی آئی اے نے نہ صرف مسلح فوجیوں کو بلکہ دنیا بھر کے مسلم ممالک سے بھرتی کئے گئے رضاکاروں کی تربیت کی تھی اور اس سلسلے میں مالی وسائل فراہم کئے تھے۔
بعد میں یہ عسکریت پسند عناصر پاکستان کے تمام علاقوں میں اپنا اثرورسوخ قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے جن سے ملک کے اندر مذہبی انتہا پسندی کو فروغ ملا اور سیکورٹی کی خطرناک صورت حال پیدا ہو گئی ۔
افغان اور امریکی حکام اس شبہے کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ پاکستانی فوج طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے ساتھ اپنے خفیہ رابطے ختم کرنے پر آمادہ نہیں ہو گی اور اُنہیں افغانستان میں بڑھتے ہوئے بھارتی اثرورسوخ کے خلاف استعمال کرے گی۔
پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف ذرائع ابلاغ کے نمائیندوں سے ملاقات کے بعد اتحادی ملک چین کے دورے پر روانہ ہو گئے۔ اُنہوں نے روانگی سے پہلا کہا کہ چین کے لیڈروں سے ملاقاتوں کے دوران وہ امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے گزشتہ ماہ پالیسی بیان کے حوالے سے تبادلہ خیال کریں گے۔ پروگرام کے مطابق خواجہ آصف بعد میں امریکہ کا دورہ کرنے سے پہلے روس، ایران اور ترکی بھی جائیں گے ۔