رسائی کے لنکس

حکومتِ پاکستان اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان جنگ بندی پر اتفاق


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے مذاکرات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''ایک معاہدے کے تحت حکومتِ پاکستان اور ٹی ٹی پی مکمل جنگ بندی پر آمادہ ہو چکے ہیں۔''

ملک کی قومی سلامتی کمیٹی کے پیر کو ہونے والے اجلاس کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی سے بات چیت آئینِ پاکستان کے تحت ہو رہی ہے جس میں متاثرہ علاقوں کے افراد کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا اور انہیں مکمل اعتماد میں بھی لیا جا رہا ہے۔

ان کے بقول ''مذاکرات میں ریاست کی حاکمیت، ملکی سلامتی، متعلقہ علاقوں کے امن، معاشرتی اور اقتصادی استحکام کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے گا۔''

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے گزشتہ ماہ ایک ٹی وی انٹرویو میں کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا تذکرہ کیا تھا جس میں انہوں نے واضح کیا تھا کہ افغانستان میں موجود کالعدم تنظیموں بشمول ٹی ٹی پی کے ساتھ حکومت کے مذاکرات ہو رہے ہیں اور افغان طالبان اس میں سہولت کار کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب سابق قبائلی علاقوں میں کالعدم تنظیم کی کارروائیوں میں تیزی آئی ہے۔ گزشتہ تین ماہ میں ٹی ٹی پی نے تقریباً 100 سے زائد کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

فواد چوہدری کا مزید کہنا تھا کہ یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان کے یہ علاقے ایک طویل عرصے کے بعد مکمل امن کی طرف لوٹ رہے ہیں۔

ٹی ٹی پی کی جنگ بندی کی تصدیق

تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان نے بھی حکومت کے ساتھ ایک ماہ کی جنگ بندی پر اتفاق کی تصدیق کی ہے۔ ان کے بقول مذاکرات جنگ کا حصہ ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت اس کا انکار نہیں کرسکتی، لہٰذا ٹی ٹی پی ایسے مذاکرات کے لیے تیار ہے۔

ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی نے ایک بیان میں کہا کہ ''یہ ضروری ہے کہ دونوں فریقین جنگ بندی پر عمل کریں''۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ مذاکراتی عمل میں افغان طالبان ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

بیان کے مطابق فریقین کی طرف سے ایک ماہ یعنی 9 نومبر سے 9 دسمبر تک جنگ بندی ہو گی جس میں فریقین کی رضامندی سے مزید توسیع بھی کی جائے گی۔

ترجمان کے مطابق فریقین نے مذاکراتی کمیٹیوں کے قیام پر اتفاق کیا ہے۔ یہ کمیٹیاں آئندہ کے لائحہ عمل اور فریقین کے مطالبات پر مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں گی۔

'مذاکرات افغانستان میں ہو رہے تھے'

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی اشتیاق محسود کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی اور حکومتِ پاکستان کے درمیان مذاکرات گزشتہ تین ہفتوں سے افغانستان میں ہو رہے تھے اور ان مذاکرات کا پڑاؤ کابل اور خوست تھا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغان طالبان کے قائم مقام وزیرِ داخلہ اور حقانی نیٹ ورک کے اعلیٰ کمانڈر سراج الدین حقانی، جنہیں 'خلیفہ' کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے، بطور ثالث کردار ادا کر رہے ہیں۔

اشتیاق محسود کے مطابق سراج الدین حقانی نے اس سے قبل حافظ گل بہادر گروپ کے پاکستانی حکومت سے بامعنی مذاکرات کرائے جس کے بعد ٹی ٹی پی کو حکومتِ پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ کیا۔

افغان طالبان کی پاکستان کو ٹی ٹی پی کے خلاف مدد کرنے کی یقین دہانی
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:53 0:00

ان کے بقول پاکستان کے سینئر انٹیلی جنس اہلکاروں نے افغانستان میں ٹی ٹی پی کے اہلکاروں سے ملاقات کی ہے۔ جس میں یہ طے پایا ہے کہ اعتماد سازی کی بحالی کے اقدامات کے طور پر پاکستانی حکومت سو سے زائد ٹی ٹی پی جنگجوؤں کو رہا کرے گی۔ اس کے بدلے میں کالعدم تنظیم مکمل سیز فائر کا اعلان کرے گی۔ جس کے بعد باقاعدہ طور پر مذاکرات کا آغاز ہو گا۔

حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے خبریں کئی روز سے زیرِگردش تھیں۔ جسے پشاور کے آرمی پبلک اسکول سانحے کے متاثرین نے سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔ ان کے بقول آرمی پبلک اسکول پر حملے میں ان کے بچے جان سے گئے ہیں لہٰذا ٹی ٹی پی کو معاف کرنے کا اختیار کسی دوسرے کو نہیں ہے۔

یاد رہے کہ 16 دسمبر 2014 کو ٹی ٹی پی کی جانب سے پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کے نتیجے میں 147 افراد ہلاک ہوئے تھے جس میں اکثریت اسکول کے بچوں کی تھی۔

پیپلز پارٹی کی تنقید

دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان ہونے والے معاہدے پر شدید تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پارلیمان کی جانب سے جاری کردہ پالیسی کو ہی مستند مانا جائے گا۔

انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ صدر اور وزیرِ اعظم کون ہوتے ہیں اپنے طور پر یہ فیصلہ کرنے والے کہ ٹی ٹی پی سے بھیک مانگیں جنہوں نے پاکستانی سپاہیوں، قومی قیادت اور آرمی پبلک اسکول کے بچوں کی جانیں لیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کی جانب سے جاری کردہ پالیسی ہی بہتر حکمتِ عملی ہو گی جو قانونی تصور کی جائے گی۔

'مذاکرات کو بروقت اور اچھا اقدام قرار دے سکتے ہیں'

البتہ شدت پسندی کے موضوع پر تحقیق کرنے والے سوئیڈن میں مقیم محقق عبدالسید پاکستانی حکومت کے اس اقدام کو سراہتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ پاکستان کا ایک بروقت اور اچھا اقدام قرار دیا جاسکتا ہے کہ اس نے افغانستان میں بدلتے ہوئے حالات کے پیشِ نظر خود کو درپیش پاکستانی طالبان کے خطرے کو سیاسی ذرائع سے حل کرنے کی کوشش کی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں سب سے پہلے افغان طالبان کو ثالثی کے لیے تیار کیا جو پاکستانی مقتدر حلقوں اور پاکستانی طالبان دونوں سے بظاہر اچھے تعلقات رکھتے ہیں۔

عبدالسید کے مطابق پاکستانی ریاست کے افغان طالبان بالخصوص حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی کی ثالثی میں ٹی ٹی پی سے مذاکرات پاکستانی ریاست کے اس بیانیے کی نفی کرتے ہیں جو پاکستانی طالبان کو سابق افغان حکومت اور بھارت کا حمایت یافتہ گروہ قرار دیتا تھا۔

ان کے بقول سراج الدین حقانی کا ٹی ٹی پی کو پاکستان کے ساتھ میز پر بٹھانا ان دونوں کے آپس کے اعتماد کی نشاندہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر یہ مذاکرات کسی نتیجے کے بغیر ختم بھی ہو جاتے ہیں تو اس سے یقیناً پاکستانی طالبان کو یہ فائدہ ہوگا کہ ریاست نے ان کے خلاف برسوں سے جو پاکستان مخالف ریاستوں کا آلہ کار ہونے کا لیبل لگا رکھا تھا اس سے چٹھکارا مل جائے گا اور یہ داخلی اور بیرونی سطح پر ٹی ٹی پی کے خلاف پاکستان کے مؤقف میں کمزوری کا سبب بنے گا۔

XS
SM
MD
LG