پاکستان کے شمال مغرب میں نیٹو افواج کے لیے سامان رسد لے جانے والی گاڑیوں کے ایک ٹرمینل پر تعینات فرنٹئیر کور کے اہلکاروں نے شدت پسندوں کے حملے کو ناکام بناتے ہوئے ایک حملہ آور کو ہلاک کر دیا۔
عہدیداروں کے مطابق قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں جمرود کے مقام پر قائم ٹرمینل پر بدھ کی صبح جدید خود کار ہتھیاروں سے لیس لگ بھگ ایک درجن شدت پسنوں نے فائرنگ کرتے ہوئے داخل ہونے کی کوشش کی۔
لیکن حکام کے مطابق وہاں تعینات فرنٹئیر کور کے اہلکاروں کی فوری جوابی کارروائی کے باعث شدت پسند ٹرمینل میں داخل نا ہو سکے۔ فائرنگ کے تبادلے میں حملہ آوروں کا ایک ساتھی مارا گیا جب کہ باقی وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
جمرود میں حالیہ ہفتوں میں نیٹو افواج کے لیے رسد لے جانے والے قافلوں پر کئی حملے کیے جا چکے ہیں جن میں گاڑیوں کے ڈارئیوروں سمیت متعدد افراد ہلاک ہوئے۔
افغانستان تک سامان رسد لے جانے والی گاڑیوں کے مالک اور ڈارئیور حکام سے مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ اُن کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
اُدھر تحریک طالبان پاکستان کے دو مختلف دھڑوں میں آپسی لڑائی اب بھی جاری ہے اور اطلاعات کے مطابق شمالی اور جنوبی وزیرستان کے سرحدی علاقے شوال میں جنگجو کمانڈر خان سید سجنا اور شہریار محسود کے گروپوں کے درمیان تازہ جھڑپ منگل کو شروع ہوئی جس میں دونوں جانب سے بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا۔
اطلاعات کے مطابق تازہ جھڑپ میں کم از کم پانچ جنگجو مارے گئے ہیں لیکن آزاد ذرائع سے ہلاکتوں کی تعداد کی تصدیق نہیں ہو سکی کیوں کہ جس علاقے میں یہ جھڑپیں ہوئیں وہاں تک میڈیا کے نمائندوں کی رسائی نہیں۔
اُدھر اطلاعات کے مطابق رواں ہفتے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے امیر ملا فضل اللہ نے جنوبی وزیرستان میں تحریک کے انتظامی امور دو ماہ کے لیے خالد حقانی کو سونپ دیئے ہیں جب کہ خان سجنا کو اُن کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔
لیکن اس کا باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
گزشتہ نومبر میں ایک ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد خان سید سجنا کو کالعدم تحریک طالبان کی قیادت کے لیے ایک مضبوط امیدوار سمجھا جاتا تھا لیکن طالبان نے تنظیم کی سربراہی سوات سے تعلق رکھنے والے شدت پسند ملا فضل اللہ کو سونپ دی تھی۔
عہدیداروں کے مطابق قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں جمرود کے مقام پر قائم ٹرمینل پر بدھ کی صبح جدید خود کار ہتھیاروں سے لیس لگ بھگ ایک درجن شدت پسنوں نے فائرنگ کرتے ہوئے داخل ہونے کی کوشش کی۔
لیکن حکام کے مطابق وہاں تعینات فرنٹئیر کور کے اہلکاروں کی فوری جوابی کارروائی کے باعث شدت پسند ٹرمینل میں داخل نا ہو سکے۔ فائرنگ کے تبادلے میں حملہ آوروں کا ایک ساتھی مارا گیا جب کہ باقی وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
جمرود میں حالیہ ہفتوں میں نیٹو افواج کے لیے رسد لے جانے والے قافلوں پر کئی حملے کیے جا چکے ہیں جن میں گاڑیوں کے ڈارئیوروں سمیت متعدد افراد ہلاک ہوئے۔
افغانستان تک سامان رسد لے جانے والی گاڑیوں کے مالک اور ڈارئیور حکام سے مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ اُن کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
اُدھر تحریک طالبان پاکستان کے دو مختلف دھڑوں میں آپسی لڑائی اب بھی جاری ہے اور اطلاعات کے مطابق شمالی اور جنوبی وزیرستان کے سرحدی علاقے شوال میں جنگجو کمانڈر خان سید سجنا اور شہریار محسود کے گروپوں کے درمیان تازہ جھڑپ منگل کو شروع ہوئی جس میں دونوں جانب سے بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا۔
اطلاعات کے مطابق تازہ جھڑپ میں کم از کم پانچ جنگجو مارے گئے ہیں لیکن آزاد ذرائع سے ہلاکتوں کی تعداد کی تصدیق نہیں ہو سکی کیوں کہ جس علاقے میں یہ جھڑپیں ہوئیں وہاں تک میڈیا کے نمائندوں کی رسائی نہیں۔
اُدھر اطلاعات کے مطابق رواں ہفتے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے امیر ملا فضل اللہ نے جنوبی وزیرستان میں تحریک کے انتظامی امور دو ماہ کے لیے خالد حقانی کو سونپ دیئے ہیں جب کہ خان سجنا کو اُن کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔
لیکن اس کا باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
گزشتہ نومبر میں ایک ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد خان سید سجنا کو کالعدم تحریک طالبان کی قیادت کے لیے ایک مضبوط امیدوار سمجھا جاتا تھا لیکن طالبان نے تنظیم کی سربراہی سوات سے تعلق رکھنے والے شدت پسند ملا فضل اللہ کو سونپ دی تھی۔