اسلام آباد —
نواز شریف انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ملک میں موبائل فون اور اس سے متعلق نئی ٹیکنالوجی کی بڑھتی ہوئی مانگ کو دیکھتے ہوئے سعودی عرب اور ترکی سمیت متعدد خلیجی ممالک پاکستان کے اس شعبے میں سرمایہ کاری کرنے کی خواہش رکھتے ہیں اور اس سلسلے میں ان سے بات چیت بھی جاری ہے۔
اسی کے پیش نظر وزیراعظم کے منظور شدہ منصوبے کے تحت آئندہ ماہ تھری اور فور جی موبائل فون ٹیکنالوجی کے چھ لائسنسز کی نیلامی میں ایک لائسنس اس کمپنی کے لیے بھی مختص کیا گیا ہے جو کہ پاکستان میں پہلے سے موبائل سروسز مہیا نہیں کررہی۔
مختلف وجوہات کے باعث گزشتہ چار سال سے ان لائسنسز کے اجراء کا معاملہ تاخیر کا شکار رہا اور حال ہی میں سپریم کورٹ نے بھی اس عمل کو جلد از جلد مکمل کرنے کے لیے حکومت کو احکامات جاری کیے تھے۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ لائسنسز کی نیلامی سے کم از کم ایک اعشاریہ چھ ارب ڈالر آمدن متوقع ہے۔
’’فیگر ہمارے میگا پلان سے بہتر ہے۔ یہ بولی ابتدائی قیمت ہے۔ اس سے اوپر آنی ہے۔ آپ دعا کریں کہ دو، تین بلین ڈالر ہو۔ لوگ اس نیلامی سے پرجوش ہوجائیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اس نیلامی میں جتنے زیادہ سرمایہ کار شرکت کریں گے وہ پاکستان کی آمدن میں اضافے کے اعتبار سے بہتر ہوگا۔
حال ہی میں بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے ایک جائزہ بورڈ نے دبئی میں نواز حکومت کی اقتصادی و توانائی کے شعبے میں کارکردگی کو حوصلہ افزاء قرار دیا۔
پاکستانی سرکاری عہدیدار امید کا اظہار کررہے ہیں کہ آئندہ ماہ تک آئی ایم ایف سے قرضے کی تقریباً 55 کروڑ ڈالر کی قسط موصول ہو جائے گی۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ’’حال ہی میں جاپان کے سب سے بڑی ریٹنگ ادارے اور ایک امریکہ اخبار لاس اینجلس ٹائمز نے پاکستان کو سرمایہ کاری کے لیے بہترین ملک قرار دیا ہے تو چیزیں بہتر ہورہی ہیں اور سلامتی کی صورتحال میں بہتری سے اس میں اور جمپ آئے گا۔‘‘
سابق وفاقی وزیر خزانہ سلمان شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ موبائل لائسنسز کی نیلامی کے لیے یہ وقت موزوں ہے اور ملک کی سلامتی کی بری صورتحال کا اس سے کوئی زیادہ تعلق نہیں۔
’’20 کروڑ کی تو آبادی ہے اور ہر ایک موبائل اٹھائے ہے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سروسز بڑھ بھی رہی ہیں۔ تو رول آف دی گیم ہے کہ کسی پر قدغن نا ہو، ہر ایک ٹائم ملے جائزہ لینے کے لیے اور آپ کے مشیر ایسے ہوں جو بین الاقوامی کمپنیوں کو نیلامی میں لائیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ نیلانی میں چار یا پانچ بڑی کمپنیوں کی شرکت سے اچھے نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیلی کام کے لائسنسز سے حاصل ہونے والے پیسے سے نا صرف پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آئے گی بلکہ اس سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی ہوگی کہ وہ پاکستان کے دیگر شعبوں میں بھی سرمایہ کاری کریں۔
حالیہ مہینوں میں پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر مجموعی طور پر 10 ارب ڈالر سے بھی کم سطح پر آگئے اور اسٹیٹ بنک کے پاس صرف تین ارب ڈالر تک رہ گئے تھے۔
اسی کے پیش نظر وزیراعظم کے منظور شدہ منصوبے کے تحت آئندہ ماہ تھری اور فور جی موبائل فون ٹیکنالوجی کے چھ لائسنسز کی نیلامی میں ایک لائسنس اس کمپنی کے لیے بھی مختص کیا گیا ہے جو کہ پاکستان میں پہلے سے موبائل سروسز مہیا نہیں کررہی۔
مختلف وجوہات کے باعث گزشتہ چار سال سے ان لائسنسز کے اجراء کا معاملہ تاخیر کا شکار رہا اور حال ہی میں سپریم کورٹ نے بھی اس عمل کو جلد از جلد مکمل کرنے کے لیے حکومت کو احکامات جاری کیے تھے۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ لائسنسز کی نیلامی سے کم از کم ایک اعشاریہ چھ ارب ڈالر آمدن متوقع ہے۔
’’فیگر ہمارے میگا پلان سے بہتر ہے۔ یہ بولی ابتدائی قیمت ہے۔ اس سے اوپر آنی ہے۔ آپ دعا کریں کہ دو، تین بلین ڈالر ہو۔ لوگ اس نیلامی سے پرجوش ہوجائیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اس نیلامی میں جتنے زیادہ سرمایہ کار شرکت کریں گے وہ پاکستان کی آمدن میں اضافے کے اعتبار سے بہتر ہوگا۔
حال ہی میں بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے ایک جائزہ بورڈ نے دبئی میں نواز حکومت کی اقتصادی و توانائی کے شعبے میں کارکردگی کو حوصلہ افزاء قرار دیا۔
پاکستانی سرکاری عہدیدار امید کا اظہار کررہے ہیں کہ آئندہ ماہ تک آئی ایم ایف سے قرضے کی تقریباً 55 کروڑ ڈالر کی قسط موصول ہو جائے گی۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ’’حال ہی میں جاپان کے سب سے بڑی ریٹنگ ادارے اور ایک امریکہ اخبار لاس اینجلس ٹائمز نے پاکستان کو سرمایہ کاری کے لیے بہترین ملک قرار دیا ہے تو چیزیں بہتر ہورہی ہیں اور سلامتی کی صورتحال میں بہتری سے اس میں اور جمپ آئے گا۔‘‘
سابق وفاقی وزیر خزانہ سلمان شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ موبائل لائسنسز کی نیلامی کے لیے یہ وقت موزوں ہے اور ملک کی سلامتی کی بری صورتحال کا اس سے کوئی زیادہ تعلق نہیں۔
’’20 کروڑ کی تو آبادی ہے اور ہر ایک موبائل اٹھائے ہے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سروسز بڑھ بھی رہی ہیں۔ تو رول آف دی گیم ہے کہ کسی پر قدغن نا ہو، ہر ایک ٹائم ملے جائزہ لینے کے لیے اور آپ کے مشیر ایسے ہوں جو بین الاقوامی کمپنیوں کو نیلامی میں لائیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ نیلانی میں چار یا پانچ بڑی کمپنیوں کی شرکت سے اچھے نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیلی کام کے لائسنسز سے حاصل ہونے والے پیسے سے نا صرف پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آئے گی بلکہ اس سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی ہوگی کہ وہ پاکستان کے دیگر شعبوں میں بھی سرمایہ کاری کریں۔
حالیہ مہینوں میں پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر مجموعی طور پر 10 ارب ڈالر سے بھی کم سطح پر آگئے اور اسٹیٹ بنک کے پاس صرف تین ارب ڈالر تک رہ گئے تھے۔