اسلام آباد —
پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے طالبان شدت پسندوں سے مذاکرات کے لیے تشکیل دی گئی چار رکنی حکومتی کمیٹی کو فوری طور پر مذاکراتی عمل شروع کرنے کی ہدایت کی ہے۔
جمعہ کو اس کمیٹی کا پہلا اجلاس وزیراعظم نواز شریف کی سربراہی میں اسلام آباد میں ہوا جس میں مذاکرات سے متعلق لائحہ عمل اور دیگر امور زیر بحث آئے۔
وزیر اعظم نے کمیٹی سے کہا ہے کہ وہ مذاکرات کی خواہش رکھنے والے گروپوں سے فوری رابطہ کرے۔
وزیراعظم نواز شریف نے بدھ کو قومی اسمبلی میں پالیسی بیان میں اس کمیٹی کی تشکیل کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ خود اس سارے عمل کی نگرانی کریں گے۔
کمیٹی میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قومی امور عرفان صدیقی، سینیئر صحافی رحیم اللہ یوسفزئی، آئی ایس آئی کے سابق عہدیدار میجر ریٹائرڈ عامر اور افغانستان کے لیے پاکستان کے سابق سفیر رستم شاہ مہمند شامل ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ کمیٹی مذاکراتی عمل میں مکمل طور پر بااختیار ہے اور انھوں نے وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان کو ہدایت کی کہ وہ کمیٹی کو متعلقہ معلومات اور درکار وسائل فراہم کریں۔
وزیراعظم کے مشیر اور کمیٹی کے رکن عرفان صدیقی نے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ طالبان جلد مشاورت کا عمل مکمل کر کے اپنی مذاکراتی ٹیم کا اعلان کریں تاکہ اس عمل کو آگے بڑھایا جا سکے۔
’’اپنی شوریٰ کے اجلاس کی تکمیل کے بعد ہمیں بتائیں کہ اُن کے مذاکراتی ٹیم تشکیل پا گئی…. اس کا مقصد یہ ہے کہ ہم وقت ضائع کیے بغیر اس عمل میں جانا چاہتے ہیں اُن کا نقطعہ نظر سننا چاہتے ہیں اپنا نقطعہ نظر اُن کو دینا چاہتے ہیں۔‘‘
عرفان صدیقی نے بتایا کہ کمیٹٰی نے طالبان اور حکومت سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ ایسے بیانات سے گریز کیا جائے جن سے مذاکراتی عمل پر منفی اثرات پڑیں۔ اُنھوں نے کہا کہ کمیٹٰی نے توقع ظاہر کی ہے کہ وزراء اور عہدیدار ایسے بیانات سے اجتناب کریں جس سے مذاکراتی عمل متاثر ہو سکتا ہو۔
’’اگر ہم کسی بھی مرحلے پر یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہمیں کسی اور کی بھی خدمات بھی مطلوب ہیں یا کوئی اور شخصیت پاکستان میں ایسی جو اس مشن کو آگے بڑھانے کے لیے معاون ثابت ہو سکتی ہے تو کمیٹی اُس شخصیت سے رابطہ کرے خدمات بھی لے سکتی ہے۔‘‘
وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس کے بعد کمیٹی کے دو اراکین رستم شاہ مہمند اور رحیم اللہ یوسفزئی نے حزب اختلاف کی جماعت تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے بھی ملاقات کی اور اُنھیں مذاکرات کے بارے میں حکمت عملی سے آگاہ کیا۔
گزشتہ سال ستمبر میں کل جماعتی کانفرنس میں تمام سیاسی جماعتوں نے حکومت کو شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کا مینڈیٹ دیا تھا لیکن اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی تھی جب کہ ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ بھی دیکھنے میں آیا۔
طالبان اولاً مذاکرات سے انکار کرتے ہوئے حکومت سے اس معاملے پر غیر سنجیدگی کا الزام لگاتے رہے ہیں لیکن بدھ کو وزیراعظم کی طرف سے کمیٹی کے اعلان کے بعد شدت پسندوں کی طرف سے اس کا خیر مقدم کیا گیا۔
حکومت یہ کہتی آئی ہے کہ مذاکرات اس کی اولین ترجیح ہے جب کہ طاقت صرف آخری حربے کے طور پر استعمال کی جائے گی۔
جمعہ کو اس کمیٹی کا پہلا اجلاس وزیراعظم نواز شریف کی سربراہی میں اسلام آباد میں ہوا جس میں مذاکرات سے متعلق لائحہ عمل اور دیگر امور زیر بحث آئے۔
وزیر اعظم نے کمیٹی سے کہا ہے کہ وہ مذاکرات کی خواہش رکھنے والے گروپوں سے فوری رابطہ کرے۔
وزیراعظم نواز شریف نے بدھ کو قومی اسمبلی میں پالیسی بیان میں اس کمیٹی کی تشکیل کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ خود اس سارے عمل کی نگرانی کریں گے۔
کمیٹی میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قومی امور عرفان صدیقی، سینیئر صحافی رحیم اللہ یوسفزئی، آئی ایس آئی کے سابق عہدیدار میجر ریٹائرڈ عامر اور افغانستان کے لیے پاکستان کے سابق سفیر رستم شاہ مہمند شامل ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ کمیٹی مذاکراتی عمل میں مکمل طور پر بااختیار ہے اور انھوں نے وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان کو ہدایت کی کہ وہ کمیٹی کو متعلقہ معلومات اور درکار وسائل فراہم کریں۔
وزیراعظم کے مشیر اور کمیٹی کے رکن عرفان صدیقی نے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ طالبان جلد مشاورت کا عمل مکمل کر کے اپنی مذاکراتی ٹیم کا اعلان کریں تاکہ اس عمل کو آگے بڑھایا جا سکے۔
’’اپنی شوریٰ کے اجلاس کی تکمیل کے بعد ہمیں بتائیں کہ اُن کے مذاکراتی ٹیم تشکیل پا گئی…. اس کا مقصد یہ ہے کہ ہم وقت ضائع کیے بغیر اس عمل میں جانا چاہتے ہیں اُن کا نقطعہ نظر سننا چاہتے ہیں اپنا نقطعہ نظر اُن کو دینا چاہتے ہیں۔‘‘
عرفان صدیقی نے بتایا کہ کمیٹٰی نے طالبان اور حکومت سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ ایسے بیانات سے گریز کیا جائے جن سے مذاکراتی عمل پر منفی اثرات پڑیں۔ اُنھوں نے کہا کہ کمیٹٰی نے توقع ظاہر کی ہے کہ وزراء اور عہدیدار ایسے بیانات سے اجتناب کریں جس سے مذاکراتی عمل متاثر ہو سکتا ہو۔
’’اگر ہم کسی بھی مرحلے پر یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہمیں کسی اور کی بھی خدمات بھی مطلوب ہیں یا کوئی اور شخصیت پاکستان میں ایسی جو اس مشن کو آگے بڑھانے کے لیے معاون ثابت ہو سکتی ہے تو کمیٹی اُس شخصیت سے رابطہ کرے خدمات بھی لے سکتی ہے۔‘‘
وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس کے بعد کمیٹی کے دو اراکین رستم شاہ مہمند اور رحیم اللہ یوسفزئی نے حزب اختلاف کی جماعت تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے بھی ملاقات کی اور اُنھیں مذاکرات کے بارے میں حکمت عملی سے آگاہ کیا۔
گزشتہ سال ستمبر میں کل جماعتی کانفرنس میں تمام سیاسی جماعتوں نے حکومت کو شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کا مینڈیٹ دیا تھا لیکن اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی تھی جب کہ ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ بھی دیکھنے میں آیا۔
طالبان اولاً مذاکرات سے انکار کرتے ہوئے حکومت سے اس معاملے پر غیر سنجیدگی کا الزام لگاتے رہے ہیں لیکن بدھ کو وزیراعظم کی طرف سے کمیٹی کے اعلان کے بعد شدت پسندوں کی طرف سے اس کا خیر مقدم کیا گیا۔
حکومت یہ کہتی آئی ہے کہ مذاکرات اس کی اولین ترجیح ہے جب کہ طاقت صرف آخری حربے کے طور پر استعمال کی جائے گی۔