رسائی کے لنکس

طلبا و طالبات کے اکٹھے بیٹھنے پر پابندی نہیں لگائی: سوات یونیورسٹی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

یونیورسٹی آف سوات کے نوٹس بورڈ پر دو روز قبل ایک بیان آویزاں کیا گیا تھا جس میں متنبہ کیا گیا کہ اگر طلبا و طالبات ایک ساتھ گھومتے پھرتے پائے گئے تو ان پر پچاس روپے سے لے کر پانچ ہزار روپے تک جرمانہ عائد کرنے کے علاوہ تادیبی کارروائی بھی کی جا سکتی ہے۔

پاکستان کے شمال مغربی ضلع سوات کی یونیورسٹی نے اُن خبروں کی تردید کی ہے کہ اس تعلیمی ادارے کی انتظامیہ کی طرف سے جامعہ کے طلبا و طالبات کو اکٹھے بیٹھنے یا گھومنے پھرنے پر کسی بھی طرح کی قدغن لگائی ہے۔

یورنیورسٹی کی انتظامیہ نے اس ضمن میں یونیورسٹی کے چیف پراکٹر کے نام سے جاری ہونے والے نوٹس کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی بھی بنا دی ہے۔

یونیورسٹی آف سوات کے نوٹس بورڈ پر دو روز قبل ایک بیان آویزاں کیا گیا تھا جس میں متنبہ کیا گیا کہ اگر طلبا و طالبات ایک ساتھ گھومتے پھرتے پائے گئے تو ان پر پچاس روپے سے لے کر پانچ ہزار روپے تک جرمانہ عائد کرنے کے علاوہ تادیبی کارروائی بھی کی جا سکتی ہے۔

تاہم ہفتہ کو یونیورسٹی کے ترجمان آفتاب احمد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ نوٹس وائس چانسلر اور رجسٹرار کے علم میں لائے بغیر کسی نے جاری کیا اور اس معاملے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ نوٹس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں اور چیف پراکٹر کو فی الوقت معطل کر دیا گیا۔

"یہاں پر تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ہم کسی پر قدغن لگائیں۔ ہر اسٹوڈنٹ کو یہ اختیار ہے کہ وہ جس طرح چاہے اپنی زندگی گزار سکتا ہے۔۔۔ ہم کسی کی ذاتی زندگی میں مداخلت نہیں کرسکتے یہ اخلاقاً بھی غلط ہے، ہم (مداخلت) نہیں کرنا چاہتے اور نہ کرسکتے ہیں۔"

آفتاب احمد نے بتایا کہ یونیورسٹی آف سوات میں سات سو طالبات سمیت 3200 کو طلبا زیر تعلیم ہیں۔

سوات اور اس سے ملحقہ علاقوں میں طالبان شدت پسندوں نے اپنا اثرورسوخ قائم کر رکھا تھا جنہیں 2009ء میں بھرپور فوجی کارروائی کر کے یہاں سے مار بھگایا گیا۔ طالبان کے دور میں یہاں پر مخلوط تعلیم تو درکنار لڑکیوں کو تعلیم کی اجازت ہیں نہیں دی جاتی تھی۔

لیکن اُس وقت بھی یہاں کے لوگوں نے کسی نہ کسی طریقے سے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھا اور یہیں سے خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم کے حق کے لیے اٹھنے والی آواز ملالہ یوسفزئی کی صورت سامنے آئی۔

ملالہ کا تعلق بھی سوات سے ہے جو کہ کم عمر ترین نوبل انعام یافتہ شخصیت بھی بن گئی ہیں۔

ملالہ یوسفزئی اسکول سے گھر واپس جاتے ہوئے طالبان کے حملے میں شدید زخمی ہو گئی تھیں اور ابتدائی علاج کے بعد انتہائی تشویشناک حالت میں اُنھیں برطانیہ منتقل کیا گیا جہاں اب وہ صحت مند ہیں اور اپنی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

XS
SM
MD
LG