اسلام آباد —
پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے پنجاب کے علاقے مظفر گڑھ میں مبینہ طور پر لڑکی کو جنسی زیادتی کا شکار بنانے والے ملزمان کو پولیس کی طرف سے رہا کیے جانے کے واقعے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے اعلیٰ عہدیداروں سے رپورٹ طلب کی ہے۔
مظفرگڑھ کے علاقے میر ہزار میں آمنہ نامی طالبہ نے ملزمان کی رہائی کے ردعمل میں جمعرات کو تھانے کے سامنے خود کو آگ لگا لی تھی۔ متاثرہ لڑکی کو شدید زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جمعہ کو دم توڑ گئی۔
جمعہ کو سپریم کورٹ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ کو یہ معلوم ہوا ہے کہ متاثرہ لڑکی، اس کی والدہ اور رشتے داروں نے پولیس اسٹیشن کے سامنے احتجاج بھی کیا۔
بیان کے مطابق لڑکی کی خودسوزی کا واقعہ اور اس پر ہونے والی بحث نظام انصاف خصوصاً پولیس کی طریقہ کار سے متعلق اچھی خبر نہیں ہے۔
عدالت عظمیٰ نے پنجاب پولیس کے سربراہ اور مظفر گڑھ کے ضلعی پولیس افسر کو 17 مارچ کو عدالت میں پیش ہوکر تحریری جواب جمع کروانے کی ہدایت کی ہے۔
علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے کہا کہ پولیس سربراہ تحریری طور پر متاثرہ لڑکی کی طرف سے لگائے جانے والے الزامات کی تفصیل، تفتیشی افسر کی طرف سے اکٹھے کیے گئے شواہد، طبی معائنے کی رپورٹ، اگر دستیاب ہو تو جینیانی تجزیہ (ڈی این اے) سے متعلق آگاہ کریں۔
مزید برآں یہ بھی بتایا جائے کہ تفتیشی افسر نے ملزمان کو کس بنیاد پر بے قصور قرار دیا اور آیا تفتیشی افسر کے اخذ کردہ نتائج کی کسی اعلیٰ پولیس افسر نے تصدیق کی تھی یا نہیں۔
عدالت عظمیٰ نے پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل کو بھی 17 مارچ کو پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
ادھر انسانی حقوق کی ایک موقر غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے فوجداری نظام انصاف پر ایک سیاہ دھبہ قرار دیا۔
ایک بیان میں تنظیم کا کہنا تھا کہ یہ انتہائی افسوسناک لیکن سبق آموز امر ہے کہ انتہائی جوش و خروش سے منائے جانے والے ’’خواتین کے عالمی دن‘‘ کے محض ایک ہفتے بعد نظام انصاف اور ریاست کے رویے کی وجہ سے ایک خاتون کو اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑے۔
تنظیم نے امید ظاہر کی کہ حکومت تاخیر سے ہی سہی، عصمت دری کرنے والوں پر مقدمہ چلانے سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرے گی۔
وزیراعلیٰ پنجاب بھی اس واقعے کا نوٹس لے چکے ہیں اور انھوں نے بھی اعلیٰ پولیس حکام سے اس کی تفصیلات پیش کرنے کا کہہ رکھا ہے۔
مظفرگڑھ کے علاقے میر ہزار میں آمنہ نامی طالبہ نے ملزمان کی رہائی کے ردعمل میں جمعرات کو تھانے کے سامنے خود کو آگ لگا لی تھی۔ متاثرہ لڑکی کو شدید زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جمعہ کو دم توڑ گئی۔
جمعہ کو سپریم کورٹ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ کو یہ معلوم ہوا ہے کہ متاثرہ لڑکی، اس کی والدہ اور رشتے داروں نے پولیس اسٹیشن کے سامنے احتجاج بھی کیا۔
بیان کے مطابق لڑکی کی خودسوزی کا واقعہ اور اس پر ہونے والی بحث نظام انصاف خصوصاً پولیس کی طریقہ کار سے متعلق اچھی خبر نہیں ہے۔
عدالت عظمیٰ نے پنجاب پولیس کے سربراہ اور مظفر گڑھ کے ضلعی پولیس افسر کو 17 مارچ کو عدالت میں پیش ہوکر تحریری جواب جمع کروانے کی ہدایت کی ہے۔
علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے کہا کہ پولیس سربراہ تحریری طور پر متاثرہ لڑکی کی طرف سے لگائے جانے والے الزامات کی تفصیل، تفتیشی افسر کی طرف سے اکٹھے کیے گئے شواہد، طبی معائنے کی رپورٹ، اگر دستیاب ہو تو جینیانی تجزیہ (ڈی این اے) سے متعلق آگاہ کریں۔
مزید برآں یہ بھی بتایا جائے کہ تفتیشی افسر نے ملزمان کو کس بنیاد پر بے قصور قرار دیا اور آیا تفتیشی افسر کے اخذ کردہ نتائج کی کسی اعلیٰ پولیس افسر نے تصدیق کی تھی یا نہیں۔
عدالت عظمیٰ نے پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل کو بھی 17 مارچ کو پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
ادھر انسانی حقوق کی ایک موقر غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے فوجداری نظام انصاف پر ایک سیاہ دھبہ قرار دیا۔
ایک بیان میں تنظیم کا کہنا تھا کہ یہ انتہائی افسوسناک لیکن سبق آموز امر ہے کہ انتہائی جوش و خروش سے منائے جانے والے ’’خواتین کے عالمی دن‘‘ کے محض ایک ہفتے بعد نظام انصاف اور ریاست کے رویے کی وجہ سے ایک خاتون کو اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑے۔
تنظیم نے امید ظاہر کی کہ حکومت تاخیر سے ہی سہی، عصمت دری کرنے والوں پر مقدمہ چلانے سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرے گی۔
وزیراعلیٰ پنجاب بھی اس واقعے کا نوٹس لے چکے ہیں اور انھوں نے بھی اعلیٰ پولیس حکام سے اس کی تفصیلات پیش کرنے کا کہہ رکھا ہے۔