پاکستان کی عدالت عظمٰی کے تین رکنی بینچ نے فوجی عدالتوں کے قیام کے حوالے حال ہی پارلیمان سے منظور کردہ اکیسویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواست کے ساتھ ہی 2010ء میں منظور کی گئی اٹھارویں آئینی ترمیم سے متعلق درخواستوں کو بھی سننے کا فیصلہ کیا۔
عدالت عظمٰی کے تین رکنی بینچ کے سربراہ چیف جسٹس ناصرالملک نے جمعرات کو ہونے والی سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں کہا کہ آئین کے بنیادی ڈھانچے میں ترمیم سے متعلق پارلیمان کے اختیار کا تعین کیا جانا ضروری ہے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ اکیسویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کر رہا ہے۔
جمعرات کو جب مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو عدالت کو بتایا گیا کہ ماسوائے صوبہ خیبر پختونخواہ کے ایڈوکیٹ جنرل کے کسی اور نے اکیسویں آئینی ترمیم سے متعلق جواب داخل نہیں کرایا۔
اس سے قبل عدالت عظمٰی نے وفاقی حکومت اور چاروں صوبائی حکومتوں کو 12 فروری تک جواب داخل کرانے کا حکم دیا تھا۔
اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے جمعرات کو عدالت سے استدعا کی کہ کیوں کہ اکیسویں ترمیم کے خلاف کئی درخواستیں دائر کی گئی ہیں اس لیے وفاق کو مفصل جواب داخل کروانے کے لیے مہلت دی جائے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے خلاف لگ بھگ چار سال قبل درخواستیں دائر کی گئی تھیں جو اب بھی زیر التوا ہیں اس لیے اُن کو بھی اکیسویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کے ساتھ ہی سنا جائے گا۔
اکیسویں آئینی ترمیم کے خلاف مرکزی درخواست گزار لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان نے کہا کہ دو مختلف آئینی ترامیم کے خلاف دائر درخواستوں کی ایک ساتھ سماعت نا کی جائے۔
تاہم بینچ نے حامد خان کے موقف سے اتفاق نہیں کیا اور اب درخواستوں کی سماعت 24 فروری کو ہو گی۔ عدالت نے وفاق اور تین صوبوں کو 24 فروری سے قبل اپنا جواب داخل کرانے کا کہا ہے۔
اُدھر ملک میں وکلاء کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم پاکستان بار ایسوسی ایسشن نے فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف جمعرات کو احتجاج کیا اور وکیل بازوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر عدالتوں میں پیش ہوئے۔
پاکستان کی وفاقی حکومت کا یہ موقف رہا ہے کہ ملک کو غیر معمولی حالات کا سامنا ہے جن سے نمٹنے کے لیے فوجی عدالتیں قائم کی گئی ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ نے بدھ کو قومی اسمبلی میں ایک بیان دیتے ہوئے فوجی عدالتوں کے قیام کی وجہ کچھ یوں بتائی۔ ’’بہت تنقید آتی ہے کہ موجودہ عدالتی نظام کے ہوتے ہوئے فوجی عدالتیں کیوں بنائی گئیں۔ اس لیے یہ (فوجی) عدالتیں بنائی گئیں کیوں کہ ہم حالت جنگ میں ہیں۔‘‘
فوج کی طرف سے ابتدائی طور پر نو فوجی عدالتیں قائم کی گئیں جن میں وفاقی وزارت داخلہ کی طرف سے بجھوائے گئے 20 مقدمات سے پہلے مرحلے میں 12 مقدمات کی سماعت جلد شروع ہو گئی۔