پاکستان کا سپریم کورٹ ان دنوں "انصاف کا شوالہ" بنا ہوا ہے۔ جی ہاں ۔۔ انصاف کا مندر!!ملک میں جہاں ان دنوں بڑھتی ہوئی کرپشن کا شور شرابہ ہے اور محکمہ ریلوے سے لے کر پولیس اور پولیس سے لے کر حج جیسے مقدس ترین فرض تک کرپشن کی ہزاروں داستانیں بکھری پڑی ہیں وہیں سپریم کورٹ مہنگائی کے بوجھ تلے دم توڑتی قوم کی آخری امید ہے۔
سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلوں اور ازخود نوٹسوں پر کارروائی کو دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ موجودہ دورمیں پروان چڑھتی بدعنوانی کی تاریخ جب بھی لکھی جائے گی اس میں بدعنوانی کے خلاف "واحد سرگرم ادارے" کے خانے میں سپریم کورٹ کا نام سنہری حروف میں ضرور لکھا جائے گا ۔ جہاں سیاستدانوں پر قوم کو اعتبار نہ رہے، حکمرانوں کے گریبان میڈیا کاآئینہ بنے ہوں، قانون کی عمل دار ی پر مامور ادارے سب سے زیادہ کرپٹ کہلائے جائیں، وہاں واحد عدلیہ ہی "سرگرم ادارہ" رہ جاتی ہے۔
خود کو ہر قانون کی حد سے آزادظاہر کرنے والے اداروں کو عدالت کے کٹہرے میں بلانا اور ان سے اصل حقائق اگلوانا جہاں ایک طرف سپریم کورٹ کی بہادری اور دلیری کو ظاہر کرتا ہے وہیں عدلیہ کا یہ رخ63سالہ پاکستانی مورخ کے لئے بھی نیااورحیران کن ہے۔ اس کیلئے عدلیہ کا یہ اقدام شیر کے منہ میں پنجہ ڈال کر گوشت نکالنے کے مترادف ہے۔
انگریزی کی ایک مثال ہے جس کواردومیں یوں کہا جاسکتاہے کہ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہے لیکن حج انتظامات میں کرپشن اور حاجیوں کے ساتھ زیادتی کے معاملے پر جس قدر تیزی سے ایکشن لیا گیا وہ اس مقولے کو سچ ثابت کردینے کیلئے کافی ہے۔ اچھی عدلیہ کی بہترین پہچان فوری انصاف کے علاوہ اور کیا ہوسکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حج انتظامات میں کرپشن، پوری دنیا میں سب سے زیادہ بدنامی کا سبب بنا ہے۔
سپریم کورٹ کے حکم پر رینٹل پاور کمپنی کی جانب سے سوا 2ارب روپے کی حکومت کو واپسی وہ بھی مارک اپ سمیت اسی سبب ممکن ہوسکی کہ عدلیہ نے اس معاملے پر خصوصی دلچسپی لی۔ پھر گوادر پورٹ کی زمین غیرملکی کمپنی کے حوالے کرنے سے روکنا، وفاقی وزیر حامد کاظمی سے حج انتظامات میں کرپشن کا اعتراف، رینٹل پاور پلانٹس کی ادائیگیوں میں فراڈپر ازخود نوٹس، ڈی جی حج راوٴ شکیل کی گرفتاری، حکومت کی جانب سے نیب ترمیمی آرڈیننس واپس لینے کا فیصلہ، ججزکی تقرری، این آر او، 18 ویں ترمیم، حارث اسٹیل ملز، پنجاب بینک اور ریکوڈک میں سونے اورتانبے کے قیمتی قدرتی ذخائر کی سستے داموں فروخت سمیت سینکڑوں ایسے کیسزہیں جن کی سماعت اخبارات کی شہ سرخیوں میں جگہ پاتی رہی ہے۔ اب بھی شاید ہی کوئی ایسا دن جاتا ہے جب اخبارات سپریم کورٹ کی خبر سے محروم ہوتے ہوں۔
سپریم کورٹ نے سرکاری سطح پر ہی کارروائی کرنے تک اپنے آپ کو محدود نہیں رکھا بلکہ عوامی سطح پر اس ادارے کی کاروائی نظر آتی ہے ۔ اس کی مثال چک شہزاد کے رہائشی کو 43 سال بعد سپریم کورٹ کی ہدایت پر پلاٹ کی الاٹمنٹ ہے۔ شفاعت علی کا مکان کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے 1967 میں حاصل کیا تھا لیکن محکمہ کے عملہ نے اسے نابالغ قرار دے کر پلاٹ دینے سے انکار کر دیاتھا۔
اردو کی ایک ضرب المثل ہے خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ یہاں بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہے۔ پاکستان سپریم کورٹ کی کارکردگی دیکھتے ہوئے بھارتی سپریم کورٹ بھی اس کے نقش قدم پر چل نکلی ہے اور اس نے ٹیلی کام اسکینڈل پر وزیراعظم من موہن سنگھ کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔