رسائی کے لنکس

آئی ایم ایف سے قرض کی قسط کا حصول؛ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں


حکومت نے عالمی مالیاتی ادارے کی تمام شرائط کو قانون کا حصہ تو بنادیا ہے لیکن اس سلسلے میں اسے مزید اقدامات کرنا ہوں گے۔ فائل فوٹو۔
حکومت نے عالمی مالیاتی ادارے کی تمام شرائط کو قانون کا حصہ تو بنادیا ہے لیکن اس سلسلے میں اسے مزید اقدامات کرنا ہوں گے۔ فائل فوٹو۔

قومی اسمبلی نے آئی ایم ایف سے قرض کا حصول یقینی بنانے کے لیے فنانس ایکٹ کثرت رائے سے منظور کرکے عالمی مالیاتی ادارے کی تمام شرائط کو قانون کا حصہ تو بنادیا ہے لیکن اس سلسلے میں حکوت کو مزید اقدامات کرنا ہوں گے۔

اس قانون سازی میں پیٹرولیم لیوی کی قیمت میں مرحلہ وار 50 روپے لیٹر اضافے، تنخواہ دارطبقے کے لیے ریلیف ختم کرکے نئی ٹیکس شرح کا نفاذ، موبائل فون کی درآمد پر 16ہزار تک لیوی ٹیکس، امیر طبقے اور کمپنیوں اور کاروباری اداروں پر غربت ٹیکس کا نفاذ کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ نئی قانون سازی میں 13 شعبوں میں منافع پر سپر ٹیکس بھی عائد کیا کردیا گیا ہے۔

حکومت نے نان فائلرز کے لیے ٹیکس کی شرح 100 سے بڑھا کر 200 فی صد کردی ہے جبکہ ایل پی جی کے فی میٹرک ٹن یونٹ پر 30 ہزار روپے لیوی عائد کرنے کی ترمیم بھی منظور کرلی گئی ہے۔

مطالبات کیا ہیں؟

ملک کےمعاشی و سیاسی حالات میں اس قانون سازی کو حکومت کے لیے مشکل فیصلہ قرار دیا جارہا ہے۔ یہ کٹھن مرحلہ طے کرنے کے بعد بھی ماہرین کے مطابق حکومت کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ آئی ایم ایف نے قرض کے اجرا کے لیے بھیجے گئے میمورینڈم میں اسلام آباد سے مزید اقدامات کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

وزارتِ خزانہ کے سابق مشیر ڈاکٹر خاقان نجیب حسن کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ کسی معاہدے پر پہنچنے کے لیے حکومت کو اپنا خسارہ پورا کرنا ہوگا۔ اس کے لیےجولائی سے حکومت کو بجلی کی قیمتیں مزید بڑھانا پڑیں گی۔

ان کے مطابق بجٹ دستاویز میں دکھائے گئے صوبوں کی جانب سے 750 ارب روپے کے سرپلس کو یقینی بنانے کے لیے چاروں صوبوں اور وفاق کے درمیان تحریری معاہدے کی شرط کو بھی میمورینڈم کا حصہ بنایا گیا ہے۔

کئی معاشی ماہرین آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے کے لیے حکومتی اقدامات کے نتیجہ خیز ہونے پر پہلے ہی شک کا اظہار کررہے ہیں کیوں کہ ملک کے تمام صوبوں نے آئندہ سال کے لیے خسارے کا بجٹ پیش کیا ہے۔

ڈاکٹر خاقان حسن نجیب نے مزید بتایا کہ عالمی مالیاتی فنڈ سے قرض لینے کے لیے پیٹرولیم مصنوعات پر یکم جولائی سے لیوی لگانا ہوگی۔ اس کے لیے حکومت پہلے ہی بجٹ میں ترمیم منظور کرچکی ہے تاکہ سال کے آخر میں 855 ارب روپے اس مد میں حاصل کیے جاسکیں۔ تاہم اب آئی ایم ایف پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین میں حکومت کا کردار ختم کرنے کا مطالبہ بھی کررہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان اقدامات کے علاوہ آئی ایم ایف نجکاری پر توجہ دینے کے لیے بعض اقدامات کے ساتھ بجٹ میں مختص معاشی اہداف ہر صورت حاصل کرنے کی ضمانت بھی مانگ رہا ہے۔

’شرائط کافی سخت ہیں‘

بعض ماہرینِ معیشت کے خیال میں آئی ایم ایف کی شرائط کافی سخت معلوم ہوتی ہیں۔ معروف معاشی ماہر اور کالم نگار ڈاکٹر فرخ سلیم تو ان شرائط کو "غیر منصفانہ" قرار دیتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی عائد کردہ مزید شرائط سے سماجی بے چینی بڑھے گی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلی کوشش تھی کہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا جائے۔ ان کا خیال ہے کہ پاکستان اس خطرے سے نکل گیا ہے۔

فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ پاکستان نے فنانشل ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی شرائط پوری کردی ہیں۔ چین سے پاکستان کو دو ارب 30 کروڑ ڈالر مل گئے ہیں اور چین ہی سے مزید رقم ملنے کی توقع ہے۔ ان حالات میں اگر آئی ایم ایف سے معاملات طے ہوجاتے ہیں تو ایشیائی ترقیاتی بینک کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے دو ارب ڈالر کا قرض اور ورلڈ بینک 40 کروڑ ڈالر ورلڈ بینک سے ملنے کی بھی توقع ہے۔

اس کے علاوہ ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ ایک جانب سعودی عرب سے مزید پیسے ملنے کی توقع ہے تو دوسری طرف متحدہ عرب امارات کی جانب سے پاکستان کو اچھی پیش کش ہوئی ہے جس کے تحت قرضے کی واپسی کے بجائے وہ ریاستی کاروباری اداروں میں شئیرز کے خواہش مند ہیں۔ متحدہ عرب امارات نے ایسی ہی سرمایہ کاری مصر میں بھی کی ہے۔وہ تجویز کرتے ہیں کہ حکومت کو اس پیش کش پر غور کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے حکومت نے جو اقدامات کیے ہیں ان کے نتیجے میں ملک میں سماجی عدم استحکام بڑھ رہا ہے۔ معاہدے پر فنڈ اور حکومتِ پاکستان کے درمیان اتفاق کے اعلانات کے باوجود مالیاتی ادارے کی جانب سے ہر ہفتے کچھ نئےمطالبات سامنے آجاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ملک میں معاشی بے یقینی کی صورتِ حال ختم ہونے میں نہیں آرہی ہے۔

فرخ سلیم نے بتایا کہ یہ صورتِ حال صرف پاکستان ہی کی نہیں بلکہ توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے تیل اور گیس درآمد کرنے والے سبھی ممالک کم و بیش مشکل حالات کا سامنا کررہے ہیں۔

ان کاکہنا ہے کہ آئی ایم ایف کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے کیوں کہ پاکستان جیسے ملک کوئلے، تیل اور ایل این جی کی عالمی منڈیوں میں قیمتوں پر کوئی اثر رسوخ تو نہیں رکھتے لیکن ان میں اضافے سے براہِ راست متاثر ہوتے ہیں۔

پاکستان میں خوردنی تیل اتنا مہنگا کیوں ہو رہا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:24 0:00

’ملک قرض پر نہیں چل سکتا‘

فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ قرض پر زیادہ عرصے ملک نہیں چلایا جاسکتا۔حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ بھی حکومتی اداروں کا خسارہ ختم کرنے کے لیے معاشی اصلاحات متعارف کرائے۔

ان کا کہنا ہے کہ بجلی اور گیس کے شعبوں میں گردشی قرضوں سے جنم لینے والے خساروں کو ختم کرنے کے لیے جامع حکمتِ عملی بنانے کی ضرورت ہے کیوں کہ بجٹ خسارہ نیچے لانے کے لیے یہ اقدام ناگزیر ہے۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ مالی سال 22-2021 میں درپیش ملک کے بنیادی بجٹ خسارے 1600 ارب روپے کو آئندہ مالی سال میں نہ صرف ختم کیا جائے گا بلکہ اسے 125 ارب روپے سرپلس میں تبدیل کردیا جائے گا۔ جب کہ مجموعی بجٹ خسارے کو ملک کی مجموعی معاشی آمدن کے 4.9 فیصد تک محدود کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG