رسائی کے لنکس

لاہور ہائی کورٹ کا وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے لیے جمعے کو دوبارہ رائے شماری کا حکم


فائل فوٹو
فائل فوٹو

لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ حمزہ شہباز کے انتخاب کے خلاف پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ 25 منحرف ارکان کے ووٹ نکال کر دوبارہ گنتی کرائی جائے، جس میں جو فریق بھی اکثریت حاصل کرے گا وہ کامیاب کہلائے گا۔

عدالت عالیہ لاہور کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے جسٹس صداقت علی خان کی سربراہی میں درخواستوں پر سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس شاہد جمیل، جسٹس طارق سلیم شیخ، جسٹس شہرام سرور چوہدری اور جسٹس ساجد محمود سیٹھی شامل تھے۔

لارجز بینچ نے حمزہ شہباز کے بطور وزیراعلیٰ انتخاب اور سنگل بینچ کے فیصلوں کےخلاف دائر درخواستوں پر چارکے مقابلے میں ایک سے فیصلہ سنایا ہے۔

لارجز بینچ میں شامل جسٹس ساجد محمود سیٹھی نے فیصلے کے کچھ نکات سے اختلاف کیا ہے، جس میں اُنہوں نے کہا کہ عثمان بزدار کو وزیرِاعلیٰ پنجاب کے عہدے پر بحال کیا جائے۔

عدالت کی جانب سے جاری کردہ آٹھ صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے لیے ازسرِ نو نئے انتخاب کا حکم نہیں دے سکتی۔ دوبارہ الیکشن کا حکم عدالتِ عظمٰی کے فیصلے کے خلاف ہو گا۔

حمزہ شہباز کے وزیرِ اعلیٰ کے انتخاب کے وقت تحریکِ انصاف کے دو درجن سے زائد ارکان منحرف ہوئے تھے اور انہوں نے حمزہ شہباز کے حق میں ووت دیا تھا۔

پنجاب کے منحرف اراکین ڈی سیٹ: کیا حمزہ شہباز عہدے پر رہ سکیں گے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:50 0:00

عدالتی حکم کے مطابق منحرف ارکان کے 25 ووٹ نکال کر دوبارہ گنتی کی جائے، جس کے نتیجے میں جو امیدوار اکثریت کرے گا اس کو کامیاب قرار دیا جائے گا۔

تحریکِ انصاف کے منحرف ارکان کے حوالے سے فیصلے میں واضح کیا گیا ہے کہ 25 ووٹ نکالنے کے بعد اکثریت نہ ملنے پر حمزہ شہباز وزیرِ اعلیٰ پنجاب نہیں رہیں گے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی فریق کو مطلوبہ اکثریت نہیں ملتی تو آرٹیکل 130 کے تحت دوبارہ رائے شماری ہو گی۔

عدالت نے مزید کہا ہے کہ وہ پریزائیڈنگ افسر کے نوٹیفکیشن کو کالعدم کرنے کا بھی نہیں کہہ سکتی۔ عدالت پریزائیڈنگ افسر کا کردار ادا نہیں کر سکتی۔

فیصلے کے مطابق عدالت اسمبلی کے مختلف اجلاسوں میں بدنظمی کو نظر انداز نہیں کرسکتی۔ اگر آئندہ اسمبلی اجلاس میں ہنگامہ آرائی یا بدنظمی ہوئی تو توہینِ عدالت کی کارروائی ہوگی۔

عدالت نے فیصلے میں ہدایت کی ہے کہ پنجاب کے گورنر ہفتی یکم جولائی کو اسمبلی اجلاس چار بجے طلب کریں۔ پنجاب اسمبلی کا اجلاس وزیرِ اعلیٰ کے انتخاب کو عمل مکمل ہونے تک ملتوی یا برخاست نہیں کیا جا سکے گا۔

عدالتی فیصلے کے مطابق دوبارہ وزیرِ اعلیٰ کے انتخاب کا عمل مکمل ہونے کے بعد نئے وزیرِ اعلیٰ کا حلف ہفتہ دو جولائی کو دن 11 بجے تک یقینی بنائی جائے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ حمزہ شہباز نے بطور وزیرِ اعلیٰ پنجاب اور اُن کی کابینہ نے جو بھی فیصلے کیے ہیں اُنہیں قانونی تحفظ حاصل ہوگا۔

حکم نامے کے مطابق وزیراعلیٰ کے حلف کے خلاف اپیلیں نمٹائی جاتی ہیں، وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔

عدالتی فیصلے پر اختلافی نوٹ میں جسٹس ساجد محمود سیٹھی نے میڈیا کی رپورٹنگ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں نے پیشہ وارانہ انداز میں رپورٹنگ کی ہے۔ کچھ وی لاگرز نے کیس کی منفی رپورٹنگ کی، جن کے خلاف پیمرا اور ایف آئی اے کارروائی کرے۔

عدالتی فیصلے کے بعد تحریکِ انصاف کے رہنما محمود الرشید نے احاطۂ عدالت میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ آج کا دن پنجاب کی تاریخ کا یادگار دن ہے۔ حمزہ شہباز دھونس دھاندلی اور جعلی طریقے سے وزیرِ اعلیٰ بنے تھے۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ عدالت نے حمزہ شہباز اب وزیرِ اعلیٰ نہیں رہے، اب نیا انتخاب ہوگا۔

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے رہنما عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ عدالت نے نہ الیکشن کو کالعدم قرار دیا ہے اور نہ نئے الیکشن کا حکم دیا ہے۔ دوبارہ گنتی تک حمزہ شہباز وزیراعلیٰ پنجاب رہیں گے۔

عدالتی فیصلے کے بعد احاطہ عدالت میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو ان کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ نے فیصلے میں انتخابات کے عمل کے پر امن انعقاد کو یقینی بنانے کی ہدایت کی ہیں۔ اگر کسی نے انتخابات کے عمل کو پرتشدد بنانے کی کوشش کی تو اس جرم کی سزا چھ ماہ قید ہوگی۔

اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ پنجاب اسمبلی میں اُن کے ارکان کی تعداد 177 ہے۔28 ارکان کو نکال بھی دیں تو بھی ان کو برتری حاصل ہے جب کہ مخالف امیدوار کی تعداد کم ہے۔

دو ماہ قبل 16 اپریل کو پنجاب اسمبلی کے ہنگامہ خیز اجلاس میں حمزہ شہباز 197 ووٹ لے کر وزیرِ اعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے تھے۔

حمزہ شہباز کے مقابلے میں چوہدری پرویز الٰہی امیدوار تھے۔ اِس رائے شماری کا پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے ارکان نے اجلاس کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا تھا۔

حمزہ شہباز کے انتخاب کے بعد اُن کے حلف میں بھی تاخیر ہوئی تھی البتہ بعد ازاں عدالت کے حکم پر اُن سے حلف لیا گیا تھا۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق، مسلم لیگ (ق) نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کیا ہے

مسلم لیگ (ق) کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی نے قانونی ماہرین سے مشاورت کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے لیے آئینی درخواست کی تیاری شروع کردی گئی ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف کے پانچ ارکان حج کے لیے گئے ہوئے ہیں جب کہ تحریک انصاف کے پانچ ارکان کو ہائی کورٹ کے فیصلے کے باوجود الیکشن کمیشن نے نوٹیفیکیشن نہیں کیا۔ اِسی طرح ہائی کورٹ کے فیصلے میں کئی آئینی اور قانونی ابہام موجود ہیں۔ سپریم کورٹ کے سامنے قانونی نکات رکھے جائیں گے۔

تحریکِ انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی عدالت عالیہ لاہور کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیرِ اہتمام سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ وہ لاہور ہائی کورٹ کے وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے۔ حمزہ شہباز وزیرِ اعلیٰ پنجاب نہیں رہ سکتے ۔

XS
SM
MD
LG