پاکستان میں کرونا وائرس کے شکار افراد کی تعداد لگاتار بڑھتی جا رہی ہے اور تازہ ترین حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اس وقت کیسز کی تعداد 56 ہزار 349 تک پہنچ گئی ہے جب کہ 1167 اموات ہو چکی ہیں۔
معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کا کہنا ہے کہ لوگوں نے سمجھا کہ شاید یہ بیماری عید تک تھی لیکن ایسا نہیں، ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو مزید سخت لاک ڈاؤن ہو سکتا ہے۔
نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک بھر میں 10 ہزار 49 کرونا ٹیسٹ ہوئے جن میں سے 1748 افراد میں کرونا کی تصدیق ہوئی، جس کے بعد مصدقہ مریضوں کی تعداد 56 ہزار 349 ہو گئی ہے۔
اس وقت سندھ میں کیسز کی تعداد سب سے زیادہ ہے، جہاں 22 ہزار 491، پنجاب میں 20 ہزار 77، خیبر پختونخوا میں 7 ہزار 905، بلوچستان میں 3 ہزار 407، اسلام آباد میں ایک ہزار 641، آزاد کشمیر میں 221 اور گلگت بلتستان میں 619 افراد میں کرونا کی تصدیق ہو چکی ہے۔
گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا کے 34 مریض جان کی بازی ہار گئے، جس کے بعد اس وبا سے اموات کی تعداد ایک ہزار 167 ہو گئی، جب کہ 17 ہزار 482 مریض صحت یاب ہو چکے ہیں۔
کرونا متاثرین میں اضافہ پاکستان میں حالیہ لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ملک بھر میں عید کی خریداری کے دوران حفاظتی انتظامات اور دیگر پہلوؤں کو مکمل نظر انداز کیا گیا۔ عید کی نماز بھی اکثر مساجد میں ادا کی گئی، جس کے بعد ماہرین کا خدشہ ہے کہ ان کیسز کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
پاکستان میڈیکل ایسویسی ایشن کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت صورت حال پاکستان میں جتنی خراب ہونی تھی وہ پہلے ہی ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت اسپتالوں پر دباؤ بہت بڑھ چکا ہے۔ بیشتر اسپتالوں میں مریضوں کے داخلے کی گنجائش ختم ہو چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومتی رویے کے باعث لوگوں نے سوچا کہ اگر حکومت سب لاک ڈاؤن ختم کر رہی ہے، اس کا مطلب ہے کہ کرونا وغیرہ کچھ نہیں ہے۔ جس کے بعد لوگوں نے اس کو غیر سنجیدگی سے لینا شروع کر دیا ہے۔ اس وقت کیسز کی تعداد لگاتار بڑھ رہی ہے اور متاثرہ افراد کی شرح میں ٹیسٹ کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔
ڈاکٹر قیصر سجاد کا کہنا تھا کہ سندھ میں 788 بچوں میں کرونا وائرس پایا گیا ہے۔ اس سے یہ قیاس اپنی اہمیت کھو چکا ہے کہ یہ وبا بڑی عمر کے افراد کو ہوتی ہے۔ کرونا وائرس ہر عمر کے افراد کو اپنا ہدف بنا سکتا ہے۔
متاثرہ ڈاکٹروں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے اور اب تک 1200 ڈاکٹر اور دیگر طبی عملہ اس وائرس کا نشانہ بن چکا ہے۔ ایسے میں ہم صرف حکومت سے درخواست ہی کر سکتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کو سخت کیا جائے اور لوگوں کو میں سماجی فاصلوں کو بڑھایا جائے۔ ورنہ صورت حال مزید خطرناک ہو جائے گی۔
احتیاط نہ کی تو بہت بڑا سانحہ ہو سکتا ہے، ڈاکٹر ظفر مرزا
اسلام آباد میں معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے میڈیا بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ عید پر لاک ڈاؤن میں نرمی کی گئی جس کے بعد لوگوں نے بے احتیاطی کی۔ بازاروں میں جائیں تو لگتا ہے ملک میں کرونا نام کی کوئی بیماری نہیں۔ وبا ختم نہیں ہوئی بلکہ بڑھ رہی ہے۔ ڈاکٹر ظفر مرزا نے خبردار کیا ہے کہ اگر ہم نے احتیاطی تدابیر اختیار نہ کیں اور ایس او پیز پر عمل نہ کیا تو بہت بڑا سانحہ ہو سکتا ہے۔
ظفر مرزا نے کہا کہ میں عوام سے کہتا ہوں کہ وہ بیماری کو روکنے کا سبب بنیں، پھیلانے کا نہیں۔ عید کے بعد حکومت صورت حال کا دوبارہ جائزہ لے گی۔ صورت حال یہی رہی تو حکومت لاک ڈاؤن میں نرمی کے فیصلے پر نظرثانی کر سکتی ہے۔ شہری شاید یہ سمجھ رہے ہیں کہ بیماری عید تک تھی اور عید کے بعد ختم ہو جائے گی جو بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کیا تو یہ وبا بہت بڑے سانحے میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ اگر ہم نے غیرذمہ داری کا مظاہرہ کیا تو بیماری پھیلے گی اور لاک ڈاؤن بھی کرنا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں 37 ہزار 700 مریض زیر علاج جب کہ 112 کرونا مریض وینٹی لیٹر پر ہیں۔ گزشتہ چوبیس گھنٹے میں پاکستان میں 34 افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔