پاکستان میں موبائیل فون کی سمز کی نشان انگوٹھا کے ذریعے تصدیق کا توسیع شدہ مرحلہ مکمل ہوگیا ہے جس کے بعد حکام کے بقول دس کروڑ سے زائد سمز میں سے دو کروڑ 75 لاکھ سمز کو بند کر دیا گیا ہے۔
فون کی غیر قانونی سمز کے معاملے پر حالیہ برسوں میں متعدد بار یہ کہہ کر تشویش ظاہر کی جاتی رہی ہے کہ شرپسند اور دہشت گرد ان سمز کو تخریب کاری اور دیگر جرائم کے لیے استعمال کرتے آرہے ہیں۔
لیکن سمز کی تصدیق کے معاملے پر موبائیل فون سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں اور حکام کے درمیان کسی واضح حکمت عملی پر اتفاق نہ ہو سکنے کے باعث معاملہ گزشتہ برس تک جون کا توں ہی رہا۔
تاہم گزشتہ دسمبر میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد ملک سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے وضع کردہ قومی لائحہ عمل کے تحت تمام غیر تصدیق شدہ اور نامکمل کوائف والی سمز کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اس کے لیے جنوری سے اپریل کے وسط تک کا وقت مقرر کیا گیا۔
اپریل میں اس عمل کی میعاد کو 15 مئی تک بڑھا دیا گیا۔
ایک سرکاری بیان کے مطابق اب تک ساڑھے سات کروڑ سے زائد سمز کی تصدیق ہو چکی ہے اور اب اگلے مرحلے میں سمز کی تصدیق کے عمل کی جانچ کرنے کا سلسلہ بھی شروع کیا جائے گا۔
امور داخلہ کی پارلیمانی سیکرٹری مریم اورنگزیب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں سمز کی تصدیق کے عمل کو دہشت گردی سے نمٹنے کی حکومتی کوششوں میں ایک اہم قدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ بلاشبہ ایک مشکل مرحلہ تھا لیکن نیشنل ایکشن پلان کے تحت وہ تمام اقدامات کیے جائیں گے جس سے ملک میں امن و امان کا قیام ممکن ہو سکے۔
"اس میں تمام ٹیلی کام کمپنیوں نے حکومت اور وزارت داخلہ سے تعاون کیا۔ یہ تو وہ دور ہے جس میں ہر چیز شفاف ہونی چاہیے، ہر چیز ریکارڈ پر ہونی چاہیے، ہر چیز ڈیٹا بیس میں ہونی چاہیے۔"
وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار کے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ سمز کی تصدیق کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد اگر دہشت گردی کی کارروائی میں کوئی غیر تصدیق شدہ سم استعمال ہوئی تو متعلقہ موبائیل فون کمپنی کے خلاف قانون کے تحت کارروائی کی جائے گی۔