رسائی کے لنکس

ریکوڈک منصوبہ: کیا سونے اور تانبے کے ذخائر کی کان کنی اب شروع ہوپائے گی؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کی حکومت اور کینیڈا کی کمپنی کے درمیان ریکوڈک منصوبے پر ایک نیا معاہدہ طے پا گیا ہے۔ گیارہ سال کی طویل قانونی جنگ اور مذاکرات کے بعد یہ معاہدہ طے پایا ہے۔ اس معاہدے کے بعد صوبۂ بلوچستان میں دنیا کے بڑے تانبے اور سونے کے ذخائر پر، جنہیں اب تک استعمال میں نہیں لایا گیا ، کام دوبارہ شروع ہونے کی امید ہے۔

حکومتی اراکین جہاں اس معاہدے کو اپنی بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں وہیں بعض مبصرین معاہدے کی شفافیت اور اس سے مستقبل میں کسی بڑی تبدیلی کے حوالے سے فی الحال زیادہ پر امید دکھائی نہیں دے رہے۔ان کا کہنا ہے مستقبل میں اس سلسلے میں پیچیدگیاں مزید بڑھ سکتی ہیں۔

اس سے قبل یہ معاہدہ سال 2011 میں اس وقت اچانک ختم ہو گیا تھا جب بلوچستان کی صوبائی حکومت نے ٹیتھیان کاپر کمپنی(ٹی سی سی) کےنام سے ضلع چاغی کے علاقے ریکوڈک میں کان کنی کرنے والی جوائنٹ وینچر کمپنی کی مائننگ لیز میں توسیع سے انکار کر دیا تھا۔کمپنی کے دعوے کے مطابق وہ پانچ سال میں 25 کروڑ ڈالرز سے زائد کی سرمایہ کاری کرچکی تھی اور اسے مائننگ کی لیز میں اچانک توسیع نہ دینے کے فیصلے سے کئی ارب ڈالرز کا نقصان ہوا۔

ٹی سی سی یہ اعتراض لے کر عالمی بینک کے ثالثی مرکز پہنچ گئی تھی اور وہاں حکومتِ پاکستان کے خلاف پانچ اعشاریہ 97 ارب ڈالرز ہرجانے کا دعویٰ اور لندن کورٹ آف آربری ٹریشن میں بھی بلوچستان حکومت کے خلاف چار ارب ڈالر کے قریب رقم کا دعویٰ دائر کر دیا تھا۔سود ملا کر یہ رقم 11 ارب ڈالرز سے بھی زائد کی بن جاتی ہے۔

بعد ازاں جولائی 2019 میں ثالثی مرکز نے کمپنی کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے پاکستان کو چھ ارب ڈالرز کی رقم ادا کرنے کا حکم دیا۔ البتہ ستمبر 2020 میں پاکستان کی درخواست پر فیصلے پر حکم امتناع جاری کردیا گیا۔

اسی دوران برٹش ورجن آئی لینڈ میں ٹی سی سی کمپنی کی جانب سے ثالثی مرکز کے فیصلے کے تحت پاکستان کے اثاثے ضبط کرنے کا عمل شروع کیا گیا تاہم عدالتی مداخلت کے بعد یہ عمل روک دیا گیا۔ اور معاملے کو عدالت سے باہر حل کرنے کی کوششیں تیز کردی گئیں۔ جس کا نتیجہ اب جاکر برآمد ہوا ہے۔

ٰیاد رہے کہ ٹی سی سی سے قبل چاغی میں تانبے اور سونے کے ذخائر نکالنے کے لیے صوبائی حکومت نے پہلی مرتبہ 1993 میں ایک آسٹریلوی کمپنی بی ایچ پی ہلٹن سے معاہدہ کیا تھا جسے چاغی ہلز ایکسپلوریشن جوائنٹ وینچر ایگریمنٹ کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت کمپنی کو آمدن کا 75 فی صد اور حکومت کو 25 فی صد ملنا تھا۔ تاہم سیکیورٹی وجوہات اور دیگر کی بنا پر کمپنی اس معاہدے پر عمل درآمد نہیں کرسکی اور یہ منصوبہ 2006 میں ٹی سی سی کے پاس چلا گیا۔

نئے معاہدے میں نیا کیا ہے؟

نئے معاہدے کے تحت ٹی سی سی کے کنسورشیم سے چلی کی کمپنی اینٹافوگاسا باہر ہو چکی ہےاور حکومت پاکستان اب اسے 90 کروڑ ڈالر ادا کرے گی جس کے بدلے میں وہ پاکستان کے خلاف دائر ہرجانے کا کیس واپس لے لے گی۔

البتہ کینیڈین مائننگ کمپنی بیریک گولڈ کارپوریشن کے پاس منصوبے سے آمدن کا 50 فی صد حصہ جائے گا، جب کہ منصوبے سے حاصل ہونے والی آمدن کا 25 فی صد حصہ بلوچستان حکومت کے پاس رہے گا ۔ اس کے علاوہ 25 فی صد حصے میں وفاقی حکومت کے اداروں کی شراکت ہو گی۔

وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ اس عمل سے پاکستان 11 ارب ڈالرز کے جرمانے سے بچ گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بیریک کمپنی 10 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کرے گی جس سے آٹھ ہزار نئی ملازتوں کے مواقع پیدا ہوں گے اور ملک ان ذخائر سے آئندہ سو سال تک مستفید ہو سکے گا۔ اس منصوبے کی کل آمدن کا تخمینہ 100 ارب ڈالرز سے زائد کا ہے جس سے حکومت کو ٹیکسز اور رائلٹی کی مد میں بھاری آمدن متوقع ہے۔

وزیر توانائی حماد اظہر کہتے ہیں کہ معاہدے سے تانبے اور سونے کے ذخائر کی کان کنی کا دروازہ کھلے گا جس سے پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری بڑھے گی اور یہ ملک میں غیرملکی زرِمبادلہ کے ذخائر بڑھانے میں مدد گار ثابت ہو گی۔

ان کے بقول معاہدے سے حکومتِ پاکستان کے بیرون ملک اثاثےضبط کرنے کا عمل روک دیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ملک میں سب سے بڑی انفرادی سرمایہ کاری ہے جو بلوچستان میں ہونے جارہی ہے۔

'مضبوط قوانین اور بیوروکریسی کی صلاحیت بڑھائے بغیر منصوبے کے فوائد حاصل کرنا مشکل ہے'

دوسری جانب بورڈ آف انویسٹمنٹ کے سابق چیئرمین اور ماہر معاشیات ہارون شریف کا کہنا ہے کہ نئے معاہدے کی افادیت سے قبل یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آخر پاکستان میں بین الاقوامی سرمایہ کاری کے کئی ایسے منصوبے سرد خانوں کی نذر کیوں ہوجاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اکثر بین الاقوامی سرمایہ کاری لائسنسنگ کے مسائل، ٹیرف یا دیگر وجوہات کی بناپر کامیاب نہیں ہوپاتی۔ ایسے میں بین الاقوامی سرمایہ کار یا تو اپنا حصہ بیچ ڈالتے ہیں یا پھر وہ عدالتی عمل میں چلے جاتے ہیں جہاں ایک لمبا قانونی عمل شروع ہوجاتا ہے، اس سے منصوبہ متاثر ہوتا ہے اور پھر بعض اوقات اس کے نتیجے میں ملک پر بھاری جرمانہ لگ جاتا ہے۔

ہارون شریف کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو ملک میں راغب کرنے کے لیے مضبوط ریگولیٹری فریم ورک بنانے کی ضرورت ہے تاکہ سرمایہ کاری کے دوران آنے والے مسائل بین الاقوامی قوانین کے تحت فاسٹ ٹریک پر جلد حل کیے جاسکیں۔

ان کے بقول دوسرا کام پاکستان کی بیوروکریسی کی اس بابت صلاحیت بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ ہارون شریف نے مزید بتایا کہ ریکوڈک کے معاملے میں انہی عوامل اور اس کے ساتھ دیگر کا عمل دخل رہا۔ لیکن سب سے بڑا مسئلہ کنٹریکٹ ایوارڈ کرنے والوں کی ناسمجھی اور نااہلی کا ہے۔کیوں کہ ان کے بقول جب سپریم کورٹ نے 2013 میں معاہدے کو کالعدم قرار دیا تھا تو اس میں بھی یہی نکتہ رکھا تھا کہ کنٹریکٹ ایوارڈ کرنے کے عمل میں قانون پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔عدالت نے قرار دیا تھا کہ مائننگ کی لائسنسنگ میں آزادانہ بولی کیوں نہیں لگائی گئی ؟ اشتہار کیوں نہیں دیا گیا؟ بین الاقوامی قانون سمجھنے والوں نے معاہدے پر نظرثانی کیوں نہیں کی؟

ہارون شریف کے خیال میں عالمی بینک کے ثالثی مرکز کی جانب سے آنے والافیصلہ بھی یک طرفہ دکھائی دیتا ہے کیوں کہ کمپنی کی جانب سے معاہدہ ختم کرنے تک 26 کروڑ 70 لاکھ ڈالرز کی سرمایہ کاری کی گئی تھی۔ لیکن اس کے بدلے کمپنی کا چھ ارب ڈالرز ہرجانے کا دعویٰ درست قرار دیا گیا ۔

ان کا کہنا تھا کہ عالمی بینک کے دعوے کو درست قرار دینے کے بجائے دونوں فریقین کو مل بیٹھ کر مسئلہ حل کرنا چاہیے تھا۔کیوں کہ پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک چھ ارب ڈالرز کی رقم ادا نہیں کرپاتااس لیے ان کے دعوے کے مطابق بیوروکریسی میں بہت سے لوگوں کی نااہلی اور بدنیتی کی وجہ سے اس پورے منصوبے کو خراب کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ جب تک اس مسئلے کو حل نہیں کیا جاتا بین الاقوامی سرمایہ کاری کو ملک میں لانے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی۔

ماہر معاشیات کا کہنا تھا کہ نئے معاہدے کے تحت اس علاقے کی تعمیر و ترقی پر ایک ارب ڈالر خرچ کیے جانے ہیں۔ چاغی کا علاقہ جہاں یہ ذخائر پائے جاتے ہیں بہت ہی پسماندہ اور حساس علاقہ ہے۔ اگر وہاں واقعی ترقیاتی کام کیے جائیں تو اس علاقے کی حالت بدلی جاسکتی ہے۔

انہوں نےاس امید کا بھی اظہار کیا کہ چوںکہ حکومت نے یہ معاملہ انتہائی اعلیٰ سطح پر جاکر حل کیا ہے تو اس معاملے پر بین الاقوامی قانونی ماہرین کی رائے لی گئی ہو گی تاکہ مسقبل میں پھر کوئی قانونی پیچیدگیاں پیدا نہ ہو جائیں۔

البتہ ان کے بقول مسئلہ اب بھی وہی ہے کہ حکومت نےا س کی دوبارہ سے بڈنگ یعنی بولی کا عمل نہیں کیا ہےبلکہ پہلی والی کمپنی سے ہی تصفیہ کرلیا ہے جس کی وجہ سے پھر سے کوئی بھی شخص جا کر عدالت کا دروازہ کٹھکٹھا سکتا ہےکہ عدالتی ہدایات پر عمل درآمد نہیں ہوا ۔

سابق چیئرمین بورڈ آف انویسٹ منٹ کا مزید کہنا تھا کہ انہیں اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ چوں کہ معاہدے پر عملدرآمد ممکن بنانا صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے لہٰذا ان کے خیال میں بلوچستان حکومت میں اس طرح کی قابلیت اور صلاحیت نظر نہیں آتی جو ایسی کمپنی سے ڈیل کرسکے۔

انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ آنے والے دور میں اس منصوبے میں مزید پیچیدگیاں ہو گی کیوںکہ کان کنی کے کام سے ماحولیات کا بھی گہرا تعلق ہے۔ اس کے علاوہ ان سے جڑے مسائل، رائلٹی اور سیکیورٹی کے مسائل طے کرنا اور وہاں موجود جاگیرداروں سے کیسے نمٹنا ہے۔ ایسی پیچیدگیوں سے نمٹنے کے لیے ایک بڑا ادارہ چاہیے جو ان مسائل کا ون ونڈو حل تلاش کرے۔ البتہ خوش آئند بات یہ ہے کہ یہ معاملہ عدالت سے باہر ہی حل ہو گیا اور پاکستان کو جرمانے کی ادائیگی سے چھٹکارہ مل گیا۔

علاوہ ازیں وفاقی وزار جہاں اس معاہدے کو اہم کامیابی سے تعبیر کر رہے ہیں وہیں ان کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کو پارلیمان کے ساتھ سپریم کورٹ میں بھی پیش کیا جائے گا۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG