رسائی کے لنکس

پاکستان، بھارت افغان تعلقات پر معترض نہ ہو: زخیلوال


افغان سفیر کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو بھارت کے ساتھ افغانستان کے تعلقات پر معترض نہیں ہونا چاہیے اور وہ یقین دلاتے ہیں کہ یہ تعلقات کسی بھی طور پاکستان کو نقصان نہیں پہنچائیں گے

افغان صدر کے پاکستان کے لیے نمائندہ خصوصی اور سفیر ڈاکٹر عمر زخیلوال نے کہا ہے کہ اس سے قطع نظر کہ ان کے ملک کے دیگر ممالک بشمول بھارت کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کیا ہے کہ پاکستان کو افغانستان کے ساتھ اچھا برادرانہ تعلق برقرار رکھنا چاہیے۔

منگل کو اسلام آباد میں "دوطرفہ مفاہمت میں مواقع اور چیلنجز" کے عنوان سے منعقدہ دو روزہ مذاکرے سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کی خودمختاری کا احترام کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے تاکہ اختلافات کو کم کر کے دیرپا اعتماد سازی ہو سکے۔

اس مذاکرے کا اہتمام ایک غیر سرکاری تنظیم نے کیا تھا جس میں پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے دانشوروں، سیاست دانوں اور مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں اور اسے غیر رسمی سفارتکاری کا ذریعہ تصور کیا جا رہا ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں لیکن حالیہ برسوں میں ان میں ایک بار پھر تناؤ کا عنصر غالب ہے جس کی وجہ مبصرین کے نزدیک تعاون کا فقدان اور عدم اعتماد ہے۔

کابل کا دعویٰ ہے کہ اسلام آباد افغانستان میں تخریبی کارروائیوں کے لیے اپنی سرزمین استعمال کرنے والوں کے خلاف موثر کارروائی نہیں کر رہا۔

لیکن پاکستان ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے یہ الزام عائد کرتا ہے کہ اس کی سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے باعث افغانستان فرار ہو جانے والے عسکریت پسندوں کے خلاف کابل انتظامیہ ٹھوس اقدام نہیں کر رہی۔

پاکستان اس بارے میں بھی اپنے تحفظات کا اظہار کرتا ہے کہ افغانستان نے اس کے روایتی حریف ملک بھارت کو اپنے ہاں متعدد قونصل خانے قائم کرنے کی اجازت دے رکھی ہے جہاں سے بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' مبینہ طور پر پاکستان میں عدم استحکام کی منصوبہ بندی کرتی ہے۔

کابل اور نئی دہلی دونوں ہی ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔

مذاکرے سے خطاب میں افغان سفیر کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو بھارت کے ساتھ افغانستان کے تعلقات پر معترض نہیں ہونا چاہیے اور وہ یقین دلاتے ہیں کہ یہ تعلقات کسی بھی طور پاکستان کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔

پاکستان کے سابق سفارتکار اور افغان امور پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار رستم شاہ مہمند کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں میں اعتماد سازی کے لیے سب سے ضروری ان بنیادی وجوہات پر توجہ دینا ہے جو عدم اعتماد کا باعث ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ سرحدی امور کے علاوہ ایسے متعدد معاملات ہیں جن پر کابل اور اسلام آباد کے مابین اختلافات بہت گہرے ہیں۔

"اصل ایشوز کی طرف توجہ دینا ہوگی جو معاملات ہیں ان پر جب تک توجہ نہیں دیں گے تو اس طرح کے مذاکرے سے بات آگے نہیں بڑھے گی۔"

پاکستان نے افغان سرحد پر اپنی طرف باڑ لگانے کا کام بھی شروع کر رکھا ہے جس پر کابل انتظامیہ اپنے تحفظات کا اظہار کر چکی ہے تاہم اسلام آباد کا موقف ہے کہ سرحد کی موثر نگرانی دونوں ملکوں میں خاص طور پر سلامتی کے تناظر میں بہت سود مند ہے۔

حال ہی میں افغان صدر اشرف غنی نے کہا تھا کہ پاکستان کے ساتھ امن افغانستان کا قومی ایجنڈا ہے اور ان کا ملک پاکستان کے ساتھ سیاسی مذاکرات کے لیے تیار ہے۔

اس پر پاکستان نے اپنے ردعمل میں کہا تھا کہ افغانستان سے متعلق اس کا موقف واضح ہے اور وہ اس ملک میں امن و استحکام دیکھنا چاہتا ہے اور اس ضمن میں تمام ضروری اقدام میں وہ اپنا حصہ ڈالتا رہے گا۔

XS
SM
MD
LG