رسائی کے لنکس

شکار پور میں تین ہندو ڈاکٹروں سمیت چار افراد قتل


شکار پور میں تین ہندو ڈاکٹروں سمیت چار افراد قتل
شکار پور میں تین ہندو ڈاکٹروں سمیت چار افراد قتل

صوبہ سندھ کے شہر شکار پور میں مسلح افراد نے تین ہندو ڈاکٹروں سمیت چار افراد کو قتل کردیا۔ یہ واقعہ کراچی سے چار سو کلومیٹر دورقصبے چک ٹاون میں پیش آیا۔ حکام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ واقعہ مذہبی تفاوت کا شاخسانہ ہو سکتا ہے۔

ضلعی عہدیداروں کے مطابق پیر کو چک ٹاون میں مسلح افراد نے ایک کلینک پر حملہ کردیا۔ اس قصبے میں عہدیدراوں کے بقول مقامی ہندو اقلیت اور مسلمان اکثریت کے درمیان جنسی حملے کے ایک مبینہ واقعے پر اختلافات چلے آ رہے ہیں۔ مقامی مسلمانوں نے یہ بھی الزام عائد کیا ہے کہ ہندونوجوان کچھ ہفتے قبل اس علاقے میں ایک مسلمان رقاصہ کو لے کر آئے تھے۔ پولیس نے اس وقت چھاپہ مار کرکچھ ہندو نوجوانوں کو گرفتار کر لیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق دونوں کمیونٹیز کے درمیان اس معاملے پر بات چیت ہورہی تھی کہ پیر کے روز یہ خونیں واقعہ پیش آ گیا۔

اس واقعے پر وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اقلییتوں کے امور کے پیپلزپارٹی کے راہنما اورسندھ سے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر کٹھومل جیون نے کہا کہ یہ افسوسناک واقعے اقلییتوں پر بجلی بن کر گرا ہے اور ایسے وقت میں جب پہلے ہی نامساعد حالات کی وجہ سے پانچ سو سے زائد ہندو خاندان ملک کو خیراباد کہہ چکے ہیں، یہ واقعہ دل ہلا دینے والا ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ صدرمملکت آصف علی زرداری نے اس واقعے کا فوری نوٹس لیا ہے اور انہوں نے رکن پارلیمنٹ رمیش لال سے ٹیلی فون پرگفتگو میں انہں ہدایت دی ہے کہ مقامی حکام کے ساتھ مل کر اقلیتوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے۔

ڈاکٹر کٹھومل نے کہا کہ اس واقعے کے پیچھے ممکنہ طور پر’’بھیو‘‘ قبیلے کے لوگوں کا ہاتھ ہے جن کے ساتھ ہندو کمیونٹی کے اختلافات چلے آ رہے تھے۔ کٹھومل کا یہ بھی کہنا تھا کہ معاملہ کسی مسلمان رقاصہ کو علاقے میں لانے کا نہیں بلکہ ایک ’’ایس ایم ایس‘‘ کا ہے جو مبینہ طور پر اقلیتی ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے نوجوان نے کسی کو بھیجا تھا۔ تاہم ہندو کونسل کے لوگ رواج کے مطابق ’منت معافی‘ اور بات چیت کے ذریعے معاملہ حل کر رہے تھے کہ ڈاکٹروں کے قتل کا واقعہ پیش آ گیا۔

ڈاکٹر کٹھومل کے بقول تاحال اس واقعے کی ایف آئی آر تک درج نہیں ہو سکی۔

دوسری طرف پاکستان میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکن ڈاکٹر مہدی حسن نے وائس آف امریکہ کے پروگرام ان دا نیوز میں گفتگو کرتے ہوئے اس واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ صرف ہندو برادری نہیں تمام اقلیتوں کو نامساعد حالات کا سامنا ہے۔ اور غیرسرکاری تنظیموں کی جانب سے کوششوں کے باوجود کہ حکومت اقلیتوں کے تحفظ کے لیے سخت قانون سازی کرے، حکومتیں مذہبی گروپوں کی مخالفت سے بچنے کے لیے کوئی دلیرانہ اقدام نہیں کرتیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسے وقت میں جب پاکستان اور بھارت کے وزراء اعظم سارک کانفرنس کے دوران اجلاس سے ہٹ کر ملاقات کرنے جا رہے ہیں، یہ واقعہ اس کے لیے انتہائی ناخوشگوار ہے۔

پشاور میں ہندوں کی ایک مقدس جگہ کو مقامی پولیس کی تحویل سے عدالت کے ذریعے واگزارکرانے والے ہندو کارکن کاکا رام نے وائس آف آمریکہ سے بات چیت میں کہا کہ جس طرح عدالت نے انہیں انصاف فراہم کیا ہے، اقلیتوں کے حقوق پر بھی وہ ازخود مداخلت کرے۔ پروفیسر مہدی حسن بھی کہتے ہیں کہ عدالتیں اگر اس جانب توجہ دیتی ہیں تو حالات میں بہتری آ سکتی ہے۔

XS
SM
MD
LG