پاکستان کی حکومت نے چین سے درخواست کی ہے کہ 1320 میگاواٹ رحیم یار خان بجلی گھر کے منصوبےکو اقتصادی راہداری پروگرام کی فہرست سے حذف کر دیا جائے کیونکہ اگلے چند برسوں میں بجلی پیدا کرنے کے اتنے منصوبے پہلے ہی شروع ہو رہے ہیں جن سے نہ صرف ضرورت کی تمام بجلی فراہم ہو سکے گی بلکہ اضافی بجلی بھی پیدا ہو گی۔
گزشتہ سال پاکستان مسلم لیگ حکومت نے اصرار کرتے ہوئے یہ منصوبہ سی پیک کی فہرست میں شامل کرایا تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ حکومت نے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (PSDP) کے تحت شامل کئے جانے والے سیکڑوں دیگر اقتصادی منصوبوں کو بھی منسوخ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
گزشتہ ماہ پاکستان چین اقتصادی راہداری سے متعلق ہونے والے آٹھویں جائینٹ کوآرڈنیشن کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان کے وزیر منصوبہ بندی و ترقی مخدوم خسرو بختیار کی سربراہی میں پاکستانی وفد نے باضابطہ طور پر رحیم یار خان منصوبے کو سی پیک کی فہرست سے خارج کرنے کی درخواست دی تھی۔ پاکستانی وفد کا استدلال تھا کہ ایسا کرنے سے پہلے سے شروع کئے گئے منصوبوں پر بھرپور توجہ دینے میں مدد ملے گی۔
میڈیا میں آنے والی خبروں کے مطابق ایک سرکاری اہلکار نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ چین نے اس کے جواب میں یہ کہا تھا کہ اس منصوبے کو خارج کرنے سے پہلے دیگر بجلی کے منصوبوں کی حتمی استعداد کا فوری جائزہ لیا جائے۔
رحیم یار خان بجلی گھر کا منصوبہ بنیادی طور پر سابقہ حکومت کے دور میں پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی سربراہی میں قائد اعظم تھرمل کمپنی نے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ کے طور پر پیش کیا تھا۔ شہباز شریف اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی سربراہی میں ہونے والے توانائی سے متعلق کابینہ کمیٹی کے اجلاسوں میں شرکت کرتے رہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اس منصوبے کی تجویز ایک بڑی کاروباری شخصیت نے دی تھی اور مبینہ طور پر وہی اس منصوبے کے اہم سپانسر بھی تھے۔
بعد میں اعلیٰ سرکاری اہلکاروں نے بتایا تھا کہ پیدا ہونے والی اضافی بجلی کے ٹھیکے پہلے ہی دئے جا چکے ہیں اور مذید ٹھیکے دینے سے ملک استعداد کے گرداب میں پھنس کر رہ جائے گا۔ اس کے بعد سابقہ حکومت نے رحیم یار خان بجلی گھر منصوبے کو سی پیک کی ترجیحی فہرست سے ہٹا دیا تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بعد میں پنجاب حکومت نے سی پیک سے متعلق ہونے والے اجلاس میں اسے دوبارہ سی پیک کی ترجیحی فہرست میں ڈالنے کی سفارش کی تھی۔ تاہم اعلیٰ سرکاری عہدیداروں نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کی ضرورت نہیں ہے اور یہ ملک کے بجلی کے سیکٹر پر بھاری مالی بوجھ ثابت ہو گا۔
سرکاری ذرائع کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ حکومت پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے ششماہی نظر ثانی کے اجلاس میں 400 کے لگ بھگ ایسے منصوبوں کو منسوخ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جو اُس کے نزدیک سیاسی بنیادوں پر تجویز کئے گئے تھے۔ ذرائع نے اس سلسلے میں مثال دیتے ہوئے پی ایس ڈ ی پی میں شامل ایسی سیکڑوں گیس سے متعلق سکیموں کا ذکر کیا ہے جن کے لئے سابقہ حکومت نے فنڈ بھی جاری کر دئے جبکہ ملک میں اضافی گیس موجود ہی نہیں تھی ۔ لہذا ان میں سے بہت سے منصوبے شروع ہی نہ ہو سکے۔
پی ایس ڈ ی پی کا شش ماہی نظر ثانی اجلاس جنوری کے آخری ہفتے میں منعقد ہو رہا ہے۔