اسلام آباد —
وفاقی وزیر اور سینٹ کی کمیٹی برائے حقوق انسانی کے رکن کامران مائیکل کہتے ہیں کہ جبری گمشدگیوں سے متعلق خفیہ اداروں کی کارروائیوں کو ایک ضابطہ کار کے تحت لانا ضروری ہے جس سے بیرون ملک پاکستان کا تشخص بہتر ہوگا۔
ہفتے کو وائس آف امریکہ سے ان کی کمیٹی کے منظور کردہ انٹلیجنس ایجنسیوں اور جبری گمشدگیوں سے متعلق قانونی مسودے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت یہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جس کا حل متفقہ پالیسی پر عمل درآمد ہی سے ممکن ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ مجوزہ بل پارلیمان کے ایوان بالا کے آئندہ اجلاس میں پیش کرنے کا ارادہ ہے جس سے ان کے مطابق پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مددگار ثابت ہوگا۔
’’بہت سے ایسے خاندان ہیں جن کی حالت کو دیکھ کر رونا آتا ہے کہ ان کے گھروں سے بچوں کے باپ کو اٹھا کر لے گئے لیکن آج تک پتا نہیں چلا کہ کہاں لے کر گئے ہیں۔ تو ایجنسیوں کوجوابدہ ہونا پڑے گا۔ اس سے ہمارا تشخص خراب ہوا ہے کہ ہم نے چند پیسوں پر اپنے لوگوں کو بیچا ہے۔ اس تاثر کو ختم ہونا چاہیے۔‘‘
پاکستان میں گزشتہ چند برسوں میں جبری گمشدگیوں کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ حقوق انسانی کی تنظیموں اور متاثرہ خاندان ملک کے خفیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس پر مورد الزام ٹھہراتے آئے ہیں جبکہ سپریم کورٹ کی طرف سے بھی اس متعلق ان اداروں کی کئی مرتبہ سرزنش کی گئی ہے۔
تاہم اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے قانون سازوں نے ایک طویل مشاورت کے بعد ایک قانونی مسودہ تیار ہے جس کے ذریعے خفیہ اداروں کی طرف سے مشتبہ افراد کو حراست میں لینے کے عمل کو ایک ضابطہ کار کے تحت لایا جائے گا۔
سینیٹ کی کمیٹی برائے حقوق انسانی کے اس مجوزہ بل کے تحت کسی مشتبہ شخص کو انٹیلی جنس ادارے کے ڈائریکٹر جنرل کے تحریری حکم پر ایک ماہ کے لیے تحویل میں لیا جاسکتا ہے جس کے بعد اسے عدالت کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ مسودے کے مطابق اس تحویل کی مدت کو تین ماہ تک بڑھایا جاسکتا ہے اگر اس پر ادارے کے اعلیٰ افسر کی جانب سے ٹھوس وجوہات بیان کی جائیں۔
حقوق انسانی کی تنظیموں کے مطابق پاکستان میں لاپتا افراد کی تعداد سینکٹروں میں ہے جن کا تعلق مبینہ طور پر بلوچ قوم پرست گروہوں اور اسلامی شدت پسندوں سے بتایا جاتا ہے۔ حال ہی میں امریکہ میں قائم غیر سرکاری تنظیم اوپن سوسائٹی نے افغانستان میں امریکی بگرام بیس میں قید مشتبہ شدت پسندوں کے لیے مہم کا آغاز کرتے ہوئے 40 پاکستانیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
گزشتہ ہفتے وفاقی کابینہ نے ایک یورپیئن کنونشن پر دستخط کرنے کی منظوری دی جس کے تحت حکام کے بقول امریکہ میں زیر حراست پاکستانی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی وطن واپسی ممکن ہو سکے گی۔ عافیہ صدیقی کو افغانستان میں امریکی فوجیوں پر حملہ کرکے مارنے کے جرم میں 86 سال قید کی سزا دی گئی تھی۔
پاکستانی سینٹ کی کمیٹی کے مجوزہ بل میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ امریکی سینٹ کی طرح پاکستان میں بھی قومی اسمبلی اور سینٹ کی پارلیمانی کمیٹیاں بنائی جائیں جو کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں پر نظر رکھ سکیں۔
وفاقی وزیربرائے بندگار اور جہاز رانی کامران مائیکل کا اس بارے میں کہنا تھا کہ ’’جو بھی ایجنسیوں کو ٹاسک دیا جاتا ہے پارلیمان اس کی مجاز ہے کہ اس سے پوچھے کہ کیا انہوں نے جامع پالیسی کے تحت عمل درآمد کیا ہے۔ کیا کھربوں روپے کے خفیہ فنڈز کو اب بھی استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ قوم کا پیسہ ہے اس کو ایسے نا لٹایا جائے۔‘‘
پاکستان گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے جس میں سیکورٹی اہلکاروں سمیت 40 ہزار سے زائد شہری مارے جا چکے ہیں۔ نواز شریف حکومت نے اس مسئلے کا حل تلاش کرنے اور متفقہ حکمت عملی تیار کرنے کے لیے پیر کو پارلیمان میں سیاسی جماعتوں کے قائدین کا اجلاس بلا رکھا ہے۔
ہفتے کو وائس آف امریکہ سے ان کی کمیٹی کے منظور کردہ انٹلیجنس ایجنسیوں اور جبری گمشدگیوں سے متعلق قانونی مسودے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت یہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جس کا حل متفقہ پالیسی پر عمل درآمد ہی سے ممکن ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ مجوزہ بل پارلیمان کے ایوان بالا کے آئندہ اجلاس میں پیش کرنے کا ارادہ ہے جس سے ان کے مطابق پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مددگار ثابت ہوگا۔
’’بہت سے ایسے خاندان ہیں جن کی حالت کو دیکھ کر رونا آتا ہے کہ ان کے گھروں سے بچوں کے باپ کو اٹھا کر لے گئے لیکن آج تک پتا نہیں چلا کہ کہاں لے کر گئے ہیں۔ تو ایجنسیوں کوجوابدہ ہونا پڑے گا۔ اس سے ہمارا تشخص خراب ہوا ہے کہ ہم نے چند پیسوں پر اپنے لوگوں کو بیچا ہے۔ اس تاثر کو ختم ہونا چاہیے۔‘‘
پاکستان میں گزشتہ چند برسوں میں جبری گمشدگیوں کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ حقوق انسانی کی تنظیموں اور متاثرہ خاندان ملک کے خفیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس پر مورد الزام ٹھہراتے آئے ہیں جبکہ سپریم کورٹ کی طرف سے بھی اس متعلق ان اداروں کی کئی مرتبہ سرزنش کی گئی ہے۔
تاہم اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے قانون سازوں نے ایک طویل مشاورت کے بعد ایک قانونی مسودہ تیار ہے جس کے ذریعے خفیہ اداروں کی طرف سے مشتبہ افراد کو حراست میں لینے کے عمل کو ایک ضابطہ کار کے تحت لایا جائے گا۔
سینیٹ کی کمیٹی برائے حقوق انسانی کے اس مجوزہ بل کے تحت کسی مشتبہ شخص کو انٹیلی جنس ادارے کے ڈائریکٹر جنرل کے تحریری حکم پر ایک ماہ کے لیے تحویل میں لیا جاسکتا ہے جس کے بعد اسے عدالت کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ مسودے کے مطابق اس تحویل کی مدت کو تین ماہ تک بڑھایا جاسکتا ہے اگر اس پر ادارے کے اعلیٰ افسر کی جانب سے ٹھوس وجوہات بیان کی جائیں۔
حقوق انسانی کی تنظیموں کے مطابق پاکستان میں لاپتا افراد کی تعداد سینکٹروں میں ہے جن کا تعلق مبینہ طور پر بلوچ قوم پرست گروہوں اور اسلامی شدت پسندوں سے بتایا جاتا ہے۔ حال ہی میں امریکہ میں قائم غیر سرکاری تنظیم اوپن سوسائٹی نے افغانستان میں امریکی بگرام بیس میں قید مشتبہ شدت پسندوں کے لیے مہم کا آغاز کرتے ہوئے 40 پاکستانیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
گزشتہ ہفتے وفاقی کابینہ نے ایک یورپیئن کنونشن پر دستخط کرنے کی منظوری دی جس کے تحت حکام کے بقول امریکہ میں زیر حراست پاکستانی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی وطن واپسی ممکن ہو سکے گی۔ عافیہ صدیقی کو افغانستان میں امریکی فوجیوں پر حملہ کرکے مارنے کے جرم میں 86 سال قید کی سزا دی گئی تھی۔
پاکستانی سینٹ کی کمیٹی کے مجوزہ بل میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ امریکی سینٹ کی طرح پاکستان میں بھی قومی اسمبلی اور سینٹ کی پارلیمانی کمیٹیاں بنائی جائیں جو کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں پر نظر رکھ سکیں۔
وفاقی وزیربرائے بندگار اور جہاز رانی کامران مائیکل کا اس بارے میں کہنا تھا کہ ’’جو بھی ایجنسیوں کو ٹاسک دیا جاتا ہے پارلیمان اس کی مجاز ہے کہ اس سے پوچھے کہ کیا انہوں نے جامع پالیسی کے تحت عمل درآمد کیا ہے۔ کیا کھربوں روپے کے خفیہ فنڈز کو اب بھی استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ قوم کا پیسہ ہے اس کو ایسے نا لٹایا جائے۔‘‘
پاکستان گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے جس میں سیکورٹی اہلکاروں سمیت 40 ہزار سے زائد شہری مارے جا چکے ہیں۔ نواز شریف حکومت نے اس مسئلے کا حل تلاش کرنے اور متفقہ حکمت عملی تیار کرنے کے لیے پیر کو پارلیمان میں سیاسی جماعتوں کے قائدین کا اجلاس بلا رکھا ہے۔