پاکستان میں پارلیمان کے ایوان بالا "سینیٹ" کے انتخابات کا مرحلہ جزوی طور پر مکمل ہو گیا ہے جس کے بعد سامنے آنے والے غیر سرکاری نتائج کے مطابق حکمران جماعت مسلم لیگ ن صرف ایک نسشت کے فرق سے ایوان بالا میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سے پیچھے ہے۔
مسلم لیگ ن نے پنجاب سے تمام 11 اور وفاق سے دو نشستوں سمیت کل 18 نشستیں حاصل کی ہیں۔
جمعرات کو 52 میں سے 48 نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کے چھ ارکان قومی اسمبلی نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے فاٹا سے سینیٹ کی نشستوں کے انتخاب میں تبدیلی کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا جس کے بعد الیکشن کمیشن نے قبائلی علاقوں سے چار نشستوں پر انتخاب ملتوی کردیا۔
سینیٹ انتخابات سے محض چند گھنٹے قبل صدر ممنون حسین نے ایک حکم نامہ جاری کیا جس کے تحت ماضی کے برعکس فاٹا سے ارکان قومی اسمبلی کو چار کی بجائے ایک ہی ووٹ ڈالنے کا اختیار حاصل ہوگا۔
فاٹا کے ارکان اور مختلف سیاسی جماعتوں نے اس آرڈیننس کو نامناسب قرار دیا ہے جب کہ حکومتی ارکان یہ کہہ کر اس کی حمایت کر رہے ہیں کہ سب کو ووٹ کا یکساں حق ہی حاصل ہونا چاہیے۔
فی الوقت پاکستان پیپلز پارٹی 27 نشستوں کے ساتھ ایوان بالا میں اکثریتی جماعت ہے جب کہ مسلم لیگ ن کی 26 نشستیں ہوچکی ہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ کی آٹھ اور صرف صوبہ خیبر پختونخواہ سے سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے والی حکومت مخالف جماعت پاکستان تحریک انصاف کی چھ نشستیں ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کے ارکان کی سینیٹ میں تعداد سات، حکومت کی اتحادی جماعت جمیعت علمائے اسلام (ف) کی پانچ، مسلم لیگ (ق) کی چار، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کی تین، تین، بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) کی دو، مسلم لیگ فنکشنل، جماعت اسلامی اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کی ایک، ایک نشست ہے جب کہ چھ نئے آزاد امیدوار بھی ایوان بالا کی نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
اب سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے عہدوں کے لیے سیاسی جوڑ توڑ کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور بظاہر حکمران مسلم لیگ ن قومی اسمبلی کے بعد اب ایوان بالا میں بھی دیگر چھوٹی جماعتوں کے ساتھ اتحاد بنا کر عددی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی دکھائی دیتی ہے۔
جمہوریت کے فروغ کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم "پلڈاٹ" کے سربراہ احمد بلال محبوب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دونوں ہی سینیٹ کے دو اہم عہدوں کے لیے اپنا زور لگائیں گی کیونکہ ان دونوں جماعتوں کے پاس دیگر جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کافی کچھ ہے۔
"پیپلز پارٹی میں لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت مسلم لیگ ن کی نسبت زیادہ ہے۔ مسلم لیگ ن چونکہ حکومت میں ہے اس کے پاس لوگوں کو نوازنے کے لیے یا انھیں فیور دینے کے لیے بہت کچھ ہے۔ میراخیال ہے برابر کا مقابلہ ہوگا، ہوسکتا ہے سمجھوتہ ہو جائے چیئرمین و ڈپتی چیئرمین کے لیے لیکن میرا خیال ہے کہ دونوں جماعتیں خصوصاً مسلم لیگ زیادہ کوشش کرے گی کہ دونوں عہدے اس کے پاس ہوں۔"
ادھر گزشتہ عام انتخابات میں دھاندلیوں کا الزام عائد کرتے ہوئے تقریباً ڈیڑھ سال سے سے صدائے احتجاج بلند کرتی چلی آرہی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ایک بار پھر یہ شبہ ظاہر کیا ہے کہ سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے عہدوں کے لیے بھی جماعتیں بدعنوانی کا سہارا لیں گی۔
تاہم حکومت اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے عمران خان کے شکوک و شبہات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ انتخابی مرحلہ خوش اسلوبی سے مکمل ہونے کے بعد یہ معاملہ بھی جمہوری طریقے سے طے کر لیا جائے گا۔