سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے کوئٹہ میں مبینہ طور پر پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے ارمان لونی قتل کیس میں پولیس کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی سفارش کر دی ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس اسلام آباد میں سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کی صدارت میں ہوا ۔ کمیٹی اجلاس میں ارمان لونی کی بہن واڑنگہ لونی بھی شریک ہوئیں۔
کمیٹی اجلاس میں خصوصی طور پر مدعو رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے کہا کہ پولیس اس کیس میں ایف آئی آر درج کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیوں کر رہی ہے۔ ہمارے خلاف تو پلک جھپکتے میں ایف آئی آر درج کر لی جاتی ہے۔
اجلاس میں شریک سینیٹر عثمان کاکڑ نےوائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہاں جنگل کا قانون ہے کہ قتل کے بعد ایف آئی آر بھی درج نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں معمولی سے معمولی بات پر نوٹس لے لیا جاتا ہے لیکن یہاں ایک شخص کو ہلاک کردیا گیا لیکن نہ تو وزیراعلیٰ نے نوٹس لیا نہ وزیراعظم یا سپریم کورٹ نے۔
کمیٹی کو بلوچستان پولیس کے حکام نے بریفنگ دی اور کہا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف لڑائی لڑ رہے ہیں، پی ٹی ایم کے خلاف نہیں۔
اجلاس میں شریک ارمان لونی کی بہن وڑانگہ لونی نے کہا کہ ارمان لونی پر پولیس نے تشدد کیا، ارمان لونی کو اسپتال لے کر جانے کی اجازت نہیں دی گئی اور بعد میں ہلاکت کی ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کیا گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ارمان لونی کی ہلاکت میں بدنیتی سامنے آ رہی ہے۔ پی ٹی ایم نے دوسری جماعتوں کے ساتھ دہشتگردی کے خلاف جلوس نکالا تھا۔ کچھ قوتیں ایسی ہیں جو پی ٹی ایم کو برداشت نہیں کر رہی، چاہے وہ ان کی ہی حمایت میں ہو۔ پی ٹی ایم کی جانب سے ہنگامی آرائی کے کوئی شواہد نہیں۔
عثمان کاکڑ نے کہا کہ قائمہ کمیٹی کے ارکان پولیس کی وضاحت سے مطمئن نہیں تھے۔ ارکان کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر کا اندراج لواحقین کا حق ہے اور پولیس کا کام تھا کہ لازماً ایف آئی آر درج کرے لیکن اس کیس میں ایسا نہیں کیا گیا۔
دوران اجلاس وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ حکومت کا پی ٹی ایم سے کافی انٹرایکشن رہا ہے اور ابھی بھی ہے۔ ارمان لونی کی ہلاکت کی ایف آئی آر درج ہونی چاہئے تھی۔ پی ٹی ایم کارکنان کی گاڑی پر فائرنگ کی مذمت کرتے ہیں۔
کمیٹی ارکان نے متفقہ طور پر ارمان لونی کی ہلاکت کی ایف آئی آر درج کرنے کی سفارش کر دی اور کہا کہ ایف آئی آر کے اندراج کے بعد ایف آئی آر کی کاپی کمیٹی کو فراہم کی جائے۔ اگر ایف آئی آر درج نہ گئی تو پولیس کے خلاف تحریک استحقاق ایوان میں پیش کی جائے گی۔
پشتون تحفظ تحریک سے تعلق رکھنے والے ابراہیم ارمان لونی کو دو فروری کو لورالائی میں مبینہ پولیس تشدد کے ذریعے ہلاک کردیا گیا تھا۔ لواحقین کے مطابق ارمان لونی کو پولیس اہلکاروں نے تشدد کا نشانہ بنایا اور اس کے بعد انہیں اسپتال لے جانے کی اجازت بھی نہیں دی گئی تھی۔