رسائی کے لنکس

افغان سرزمین سے دہشت گردی کی شکایات؛ پاکستان کو اقوامِ متحدہ سے رُجوع کیوں کرنا پڑا؟


پاکستان کے وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے منگل کو اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے ملاقات کی تھی۔
پاکستان کے وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے منگل کو اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے ملاقات کی تھی۔

  • اسحاق ڈار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اعلی سطح اجلاس میں شرکت کے لیے پیر کو نیویارک پہنچے تھے۔
  • افغانستان میں طالبان حکومت پاکستان کے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے، دہشت گردی کو پاکستان کا اندرونی معاملات قرار دیتی رہی ہے۔
  • منصور احمد کے بقول امریکہ کی نئی انتظامیہ اور دیگر بڑے ممالک افغانستان میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے اور وہ افغانستان کے حوالے سے کسی مہم میں نہیں جانا چاہتے ہیں۔
  • طالبان حکومت بارہا اپنے اس دعوے کو دہرا چکی ہے کہ افغانستان میں کسی دہشت گرد گروہ کی موجودگی یا سرگرمی نہیں ہے اور طالبان حکومت کسی بھی ملک یا خطے کے لیے خطرہ نہیں ہے۔

اسلام آباد -- پاکستان نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان کے اندر اور اس کی سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کے ساتھ تعاون کرے۔

یہ مطالبہ پاکستان کے وزیر ِ خارجہ اسحاق ڈار نے منگل کو نیویارک میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس سے ملاقات کے دوران کیا۔

وزیر خارجہ نے اُن کے بقول افغانستان سے ہونے والی سرحد پار دہشت گردی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ سے اس خطرے کے سدباب میں مدد فراہم کرنے کی اپیل کی۔

اسحاق ڈار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اعلی سطح اجلاس میں شرکت کے لیے پیر کو نیویارک پہنچے تھے۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے حوالے سے افغان سرزمین استعمال ہونے کی بات ہے البتہ اقوام متحدہ سے افغانستان میں دہشت گردی کے خاتمے میں تعاون کی اپیل نئی بات ہے۔

افغانستان میں طالبان حکومت پاکستان کے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے، دہشت گردی کو پاکستان کا اندرونی معاملات قرار دیتی رہی ہے۔

گزشتہ برس دسمبر میں پاکستان نے افغانستان کے صوبہ پکتیکا میں مبینہ فضائی حملہ کیا تھا جس میں کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) کے تربیتی کیمپ کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ طالبان حکومت نے اسے عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔

'عالمی فورمز سے رُجوع اچھی حکمتِ عملی ہے'

افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر اور تھنک ٹینک سینٹر فار پالیسی ریسرچ کے ڈائریکٹر منصور احمد خان کہتے ہیں کہ عالمی اداروں اور بڑی طاقتوں کو افغانستان سے متعلق تحفظات پہنچانے کی پالیسی درست ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے تین برس بعد بھی پاکستان کو ان سے مطلوبہ تعاون نہیں مل سکا۔ یہی وجہ ہے کہ اب پاکستان عالمی فورمز سے رُجوع کر رہا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کا یہ مطالبہ اپنی جگہ لیکن یہ دیکھنا ہو گا کہ دیگر ممالک اس معاملے کو کیسے دیکھتے ہیں۔

منصور احمد کے بقول امریکہ کی نئی انتظامیہ اور دیگر بڑے ممالک افغانستان میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے اور وہ افغانستان کے حوالے سے کسی مہم میں نہیں جانا چاہتے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کی رپورٹ میں کیا ہے؟

گزشتہ ہفتے ہی اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور تاجکستان کی جماعت انصاراللہ نے القاعدہ اور افغان طالبان کی مدد سے افغانستان میں تربیتی کیمپ قائم کر رکھے ہیں۔

یہ رپورٹ اقوام متحدہ کی انیلیکیٹکل سپورٹ اینڈ سینکشنز مانیٹرنگ نے چھ فروری کو سلامتی کونسل میں جمع کرائی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ القاعدہ کے زیر انتظام تربیتی مراکز کے علاوہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور جماعت انصار اللہ نے خوست، کنڑ، ننگرہار، پکتیکا اور تخار میں نئے تربیتی مراکز بھی قائم کیے ہیں۔ القاعدہ اور اس سے منسلک گروہ اس وقت افغانستان کے 14 صوبوں میں سرگرم ہیں۔

طالبان حکومت بارہا اپنے اس دعوے کو دہرا چکی ہے کہ افغانستان میں کسی دہشت گرد گروہ کی موجودگی یا سرگرمی نہیں ہے اور طالبان حکومت کسی بھی ملک یا خطے کے لیے خطرہ نہیں ہے۔

اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق یکم جولائی سے 13 دسمبر 2024 کے عرصے میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی افغانستان میں موجودگی، طاقت اور حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

اس گروہ نے پاکستان کے خلاف حملوں میں شدت پیدا کی۔ رپورٹ کے مطابق اس عرصے کے دوران ٹی ٹی پی نے 600 سے زائد حملے کیے جن میں سے کئی افغان سرزمین سے لانچ کیے گئے۔

منصور احمد خان نے کہا کہ افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی موجودگی سب کے لیے تشویش کا باعث ہے اور اس کے لیے سلامتی کونسل جیسے فورم کو طالبان حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو چاہیے کہ وہ خطے کے ممالک اور شنگھائی تعاون تنظیم کے انسداد دہشت گردی کے فورم سے بھی رُجوع کرے۔

اُن کے بقول اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو افغان طالبان کے ساتھ بھی رابطے برقرار رکھنے چاہئیں۔

اس سے قبل سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان مسلسل سرحد پار دہشت گرد حملوں کا سامنا کر رہا ہے۔ خاص طور پر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے افغان سرزمین سے کیے جانے والے حملے تشویشناک ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ان خطرات سے نمٹنے کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھانے کے لیے پرعزم ہے۔

پاکستان کے وزیر ِ خارجہ نے کہا کہ طالبان حکومت کو چاہیے کہ وہ افغانستان کے اندر اور اس کی سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی کو روکنے کے لیے مؤثر اور فیصلہ کن کارروائی کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ سرحد پار دہشت گردی کے باوجود پاکستان کابل میں عبوری حکومت کے ساتھ روابط جاری رکھے گا۔ افغانستان کے لاکھوں ضرورت مند افراد کے لیے انسانی امداد کی فراہمی میں سہولت فراہم کرے گا اور افغانستان کی اقتصادی و سماجی ترقی کی حمایت جاری رکھے گا۔

افغانستان کے لیے پاکستان کے سابق نمائندہ خصوصی آصف درانی کہتے ہیں کہ اقوامِ متحدہ افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی پناہ گاہوں کے حوالے سے پاکستان کے مؤقف کی پہلے ہی توثیق کر چکا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اقوامِ متحدہ کا فورم دہشت گردی کے حوالے سے ممالک کے درمیان تعاون فراہم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے اس لیے بھی پاکستان اس عالمی فورم پر اپنا مؤقف رکھ رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ دیگر ممالک کو بھی افغانستان میں شدت پسند گروہوں کی سرگرمیوں پر تشویش ہے اور ٹی ٹی پی، داعش اور القاعدہ کی سرگرمیاں عالمی برادری کے لیے بھی قابلِ تشویش ہیں۔

آصف درانی نے کہا کہ افغانستان میں اپنے تحفظات کو لے کر پاکستان خطے کے ممالک، اسلامی تعاون تنظیم اور اقوامِ متحدہ ہر فورم کو استعمال کررہا ہے تاکہ دنیا کو باور کروایا جاسکے اور طالبان کی حکومت پر بھی دباؤ بڑھایا جائے۔

آصف دُرانی کے بقول اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کیے گئے انکشافات کے بعد عالمی برادری، بالخصوص امریکہ اور دیگر طاقتوں کا ردِعمل اہم ہوگا۔

تاہم وہ کہتے ہیں کہ افغان طالبان کی حکومت کو دباؤ میں لانے کے لیے اقوام متحدہ اور بڑی طاقتوں کو مزید ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔

فورم

XS
SM
MD
LG