پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے وزیر دفاع خواجہ آصف اور مشیر خارجہ سرتاج عزیز سے کہا ہے کہ وہ ایوان میں پیش ہو کر سعودی عرب کی قیادت میں قائم فوجی اتحاد میں پاکستان کے کردار کی وضاحت کریں۔
رضا ربانی نے اب تک اس بارے میں حکومت کی طرف سے مکمل جواب نا دیئے جانے پر برہمی کا اظہار کیا۔
منگل کو سینیٹ کے اجلاس میں بعض اراکین کی طرف سے بھی کہا گیا کہ ایسی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں کہ اگر اس اتحاد کے کسی رکن ملک کی طرف سے اپنے ہاں باغی فورسز سے نمٹنے کے لیے مدد کی درخواست کی گئی تو مسلم ممالک کا عسکری اتحاد اُس کی مدد کرے گا۔
ان اطلاعات کے تناظر میں اراکین سینیٹ نے کہا کہ حکومت یہ وضاحت کرے کہ کیا ایسی کوئی چیز مسلم ممالک کے عسکری اتحاد کے چارٹر میں شامل ہے یا نہیں۔
سینیٹ کے رکن طاہر حسین مشہدی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سعودی عرب میں رواں ماہ ہونے والی پہلی عرب اسلامک امریکن کانفرنس میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سعودی عرب کے بادشاہ سلمان کی تقاریر سے یہ واضح ہو رہا تھا کہ سعودی عرب کی زیر قیادت فوج اتحاد کی توجہ ایران مخالف ہے۔
’’پاکستان کی پارلیمنٹ نے یہ واضح کیا ہوا ہے کہ کوئی بھی اتحاد جو ایران مخالف ہو گا، یا فرقے کی بنیاد پر ہو گا، یا خطے میں دھڑے بندی کی بنیاد پر ہو گا، پاکستان اُس کے سخت خلاف ہے۔ پاکستان یمن کی جنگ میں شامل نہیں ہو گا اور نا ہی پاکستان کسی دوسرے ملک کے معاملات میں مداخلت کرے گا۔‘‘
سینیٹر طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ سعودی میں ہونے والی عرب اسلامک امریکن کانفرنس میں پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کو خطاب کا موقع نہیں دیا گیا جس پر اُن کے بقول اراکین سینیٹ کی طرف سے شدید تحفظات کا اظہار سامنے آیا ہے۔
’’کانفرنس میں ہمارے ملک کو بولنے نہیں دیا، ہم واحد (مسلم) جوہری طاقت تھے اور دیگر چھوٹے چھوٹے ممالک کے سربراہان کو بات کرنے کا موقع دیا گیا تھا۔ پاکستانی عوام کے لیے یہ بات انتہائی باعث تشویش ہے کہ پاکستان کو جائز اہمیت نہیں دی گئی۔‘‘
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’’کہ ان چیزوں پر ہم وضاحت چاہتے ہیں اور اس کے لیے بہترین جگہ پارلیمنٹ ہوتی ہے کہ وہ ایوان میں آکر بتائیں کہ کیا حقیقت ہے۔‘‘
گزشتہ ہفتے پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان کی طرف سے کہا گیا تھا کہ سعودی عرب کی قیادت میں قائم مسلمان ممالک کے فوجی اتحاد کا لائحہ عمل وضع ہونا ابھی باقی ہے۔
واضح رہے کہ پاکستانی فوج کے سابق سربراہ راحیل شریف اسلامی ملکوں کے فوجی اتحاد کی کمان سنبھالنے کے لیے سعودی عرب جا چکے ہیں تاہم پاکستانی عہدیداروں کی طرف سے اس تاثر کو پہلے بھی رد کیا جاتا رہا ہے کہ راحیل شریف کسی سنی اتحاد کی قیادت کرنے گئے ہیں۔
گزشتہ سال سعودی عرب نے انسداد دہشت گردی کے لیے اسلامی ملکوں پر مشتمل ایک فوجی اتحاد تشکیل دینے کا اعلان کیا تھا، جس میں 40 سے زائد مسلمان ملک شامل ہیں تاہم اس میں ایران اور خطے کے دیگر شیعہ اکثریت والے ملک شامل نہیں ہیں۔
پاکستانی فوج کے سابق سربراہ کے اس اتحاد کی قیادت کرنے کے معاملے پر ایران کے تحفظات بھی سامنے آ چکے ہیں۔
اگرچہ سعودی عرب اور پاکستان کی طرف سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ یہ اتحاد دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے قائم کیا گیا ہے تاہم بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ مسلمان ملک دہشت گردی کے چیلنج سے اسی صورت میں موثر طور پر نمنٹ سکیں گے اگر ایران سمیت دیگر اسلامی ملک اس اتحاد کا حصہ بنیں۔