معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے موجودہ حالات میں ڈیفالٹ کا خطرہ گزشہ سال کے مقابلے میں بڑھ گیا ہے۔ اگر حکومت عالمی مالیاتی فنڈ ( آئى ایم ایف ) کے قرض پروگرام کے بغیر معیشت چلانے کی کوشش کرتی ہے تو حالات مزید خراب ہوں گے۔
آئى ایم ایف کے عہدیداروں نے جمعرات کو ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ پاکستان کو قرض پروگرام کے نویں جائزے کو مکمل کرنے کے لیے مزید بیرونی فنڈز یقینی بنانا ہوں گے۔ تاہم پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کہتے ہیں کہ پاکستان پہلے ہی آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے تمام شرائط پوری کر چکا ہےاور وہ عالمی ادارے کی مزید شرائط نہیں مانیں گے۔
اسحاق ڈار نے دعویٰ کیا ہے کہ ملک کے ڈیفالٹ ہونے کا کوئى خطرہ نہیں ہے تاہم ان کے اس بیان پر اقتصادیات کے ماہرین مختلف آرا رکھتے ہیں۔
ماہر معاشیات یوسف نذر کا کہنا ہے کہ پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کا وزیر خزانہ کا دعویٰ حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ ان کے بقول پاکستان کے لیے جون کے بعد آنے والے چھ ماہ انتہائى خطرناک ہیں اور پاکستان مسلسل ڈیفالٹ کی طرف بڑھ رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کے موجودہ حالات میں ڈیفالٹ کا خطرہ گزشتہ سال مارچ کے مقابلے میں بڑھ گیا ہے۔
ڈاکٹر زبیر اقبال، معاشی ماہر ہیں اور آئى ایم ایف کے ساتھ طویل عرصے تک کام کرنے کا تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ پاکستان کے موجودہ معاشی حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان کے لیے آئى ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں سب سے بڑا مسئلہ پاکستان کی معاشی ٹیم پر عدم اعتماد کا ہے۔
ان کے بقول آئی ایم ایف پاکستان کی طرف سے کیے گئے معاشی اہداف اور بیرونی فنانسنگ پورا کرنے کے دعوؤں کو ماننے پر تیار نہیں۔جس کی وجہ سے نومبر میں مکمل ہونے والا نواں جائزہ، ابھی تک فائنل نہیں ہو سکا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتےہوئے انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف اور پاکستان کے معاشی حکام کے درمیان اس بات پر بھی اختلاف ہے کہ ملک کو اس وقت کتنی بیرونی فنڈنگ کی ضرور ت ہے۔
آئى ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستان اپنا مالیاتی خسارہ کم کرے اور مالی سال برائے 2023 اور 2024 کے لیے بننے والے بجٹ میں آئى ایم ایف کے ساتھ کیے گئے وعدوں کو پورا کرتے ہوئے، ایک ایسی پالیسی دستاویز کی شکل میں لے کر آئے جس پر ملک کی جماعتوں کا اتفاق ہو۔
اٹلانٹک کونسل کے عزیر یونس نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس وقت جن معاشی حالات سے گزر رہا ہے، آئى ایم ایف یا آئى ایم ایف کے بغیر، اس میں بہتری کی گنجائش بہت کم ہے۔
عزیر یونس کا خیال ہے کہ اگر پاکستان آئى ایم ایف پروگرام کے بغیر معیشت چلانے کی کوشش کرتا ہے تو حالات مزید خراب ہوں گےاور اگر آئى ایم ایف پروگرام کے اندر رہتے ہوئے معیشت چلائى جاتی ہے تو اگلے چند ماہ میں تو حالات بہتر نہیں ہوں گے لیکن پاکستان پر اعتماد میں کچھ اضافہ ہو گا اور شاید ملک ڈیفالٹ سے بچ سکے۔لیکن اگلے ایک سال میں پاکستان کی معیشت انتہائى مشکلات کا شکار رہے گی۔
ان کےبقول، "پاکستانی معاشی حکام کی طرف سے دیے جانے والے بیانات عالمی ادارے سے پروگرام کی بحالی میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔اسحاق ڈار کی طرف سے آئى ایم ایف پروگرام پر ایمان داری سے عوام کو اعتماد میں لینے اور دو ٹوک الفاظ میں واضح کرنے کی ضروت ہے کہ پاکستان آئى ایم ایف پروگرام میں رہنا چاہتا ہے یا نہیں تاکہ مارکیٹس میں بھی کلیرٹی آ سکے۔"
عزیر یونس کا کہنا ہے کہ آئى ایم ایف کے بغیر پاکستان کو چلانے کے لیے، درآمدات روک کر جاری اور تجارتی خسارے کو قابو کرنے کی حکومتی پالیسی جس سے ملک کی معیشت رک چکی ہے، شاید اسی طرز پر ملک آگے چلے۔حکومت کی طرف سے درآمدات روک کر خسارہ کم کرنا اور اس پر خوشیاں منانا سمجھ سے بالا تر ہے۔
پاکستان کا بنیادی مسئلہ، ملک کے اخراجات کے مقابلے میں آمدن کا انتہائى کم ہونا ہے۔موجود ہ مالی سال کے پہلے نو ماہ میں حکومتی اعدادوشمار کے مطابق، آمدن اور اخراجات کے درمیان فرق، تین ہزار پانچ سو ارب کے لگ بھگ ہے۔آئى ایم ایف کے اہم تقاضوں میں، سبسڈیز کا خاتمہ شامل ہے اور عالمی ادارہ شفافیت اور صحیح اندازوں کے لیے، ملک کے تمام اخراجات اور آمدن کو ایک قومی پالیسی دستاویز، یعنی بجٹ دستاویزات میں دیکھنا چاہتا ہے۔
یوسف نذر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ سال ملک کی اشرافیہ کو تیرہ سو ارب روپے کی سبسڈی اور مراعات دی گئیں۔
کیا سیاسی بحران ختم ہونے سے معاشی مسائل حل ہو جائىں گے؟
یوسف نذر سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی اشرافیہ کے پاس ملک چلانے کے لیے عشروں سے کوئی معاشی منصوبہ نہیں ہےاور ملک کے معاشی مسائل صرف سیاسی بحران حل ہونے سے ختم ہونے والے نہیں ہیں۔ملک کی اسٹیبلشمنٹ سے لے کر کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس ملک چلانے کے لیے کوئى ویژن یا پالیسی نہیں ہے۔موجودہ سیاسی حالات سے پاکستان کے معاشی مسائل میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
ان کے خیال میں درآمدات کو تقریباً مکمل طور پر روک کر ملک نہیں چلایا جا سکتا۔پاکستان کے دوست ممالک بھی پاکستان کی اس طرح سے مدد کرنے کو تیار نہیں ہیں، جتنی پاکستان کو ضروت ہے۔پاکستان کو اپنی توانائى پالیسی، برآمدات کی پالیسی اور حکومتی اخراجات کم کرنے کے لیے کام کرنے کی ضروت ہے۔دنیا کے ساتھ اپنے تعلقات اور معاشی طور پر اپنے دوست ممالک اور عالمی اداروں کے ساتھ پیدا ہونے والی بد اعتمادی کا خاتمہ کرنا پاکستان کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
پاکستان کا صنعتی شعبہ، دنیا کے معیارات پر پور ا نہیں اترتا، جس کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں پاکستان کی تجارت کا حصہ، گزشتہ سالوں میں کم ہوا ہے۔
حکومت کی طرف سے دیے جانے والے ریلیف کی وجہ سے، ٹیکسٹائل ہویا آٹو سیکٹر سبھی دنیا سے مطابقت نہیں رکھتے ۔ پاکستان میں رئیل اسٹیٹ میں پیسہ بنانا اور ٹیکس بچانا بہت آسان ہے۔ ملک کا سب سے زیادہ سرمایہ رئیل اسٹیٹ میں موجود ہے ، جس کی وجہ سے نہ تو معیشت ترقی کر رہی ہے اورنہ ہی اس شعبے کی وجہ سے ملک کے محاصل میں اضافہ ہو رہا ہے۔
عزیر یونس کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اشرافیہ اپنے حصے کا ٹیکس دینے کو تیار نہیں۔ چار سے پانچ ارب ڈالر کی مراعات ہر سال صرف صنعت کاروں کو دی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ فوج، رئیل اسٹیٹ، زرعی شعبے کو بھی ہر سال اربوں ڈالر ز کی مراعات دی جاتی ہیں۔