پاکستان کی چھ بڑی مذہبی جماعتوں کے اتحاد ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ یعنی ایم ایم اے کی مکمل بحالی کی کوششیں جاری ہیں۔
اگرچہ ایم ایم اے میں شامل جماعتوں نے گزشتہ ہفتے اتحاد کی بحالی پر اصولی اتفاق کیا تھا لیکن اس کے خدوخال اور اسے حتمی شکل دینے پر مشاورت کا سلسلہ جاری ہے اور اس بارے میں فیصلہ دسمبر کے وسط میں متوقع ہے۔
سیاسی اختلافات کے باعث تقریباً 10 سال قبل یہ اتحاد ختم کر دیا گیا تھا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس اتحاد کا مقصد ملک کے سیاسی منظر نامے پر نئی مذہبی سیاسی جماعتوں کا آنا ہے جن میں قدرے سخت گیر موقف رکھنے والی جماعت تحریک لبیک یا رسول اللہ بھی شامل ہے۔
تحریک لبیک نے ستمبر میں لاہور میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں عمومی اندازوں سے بڑھ کر سات ہزار سے زائد ووٹ لیے تھے۔
تجزیہ کار حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ ان جماعتوں کی خواہش ہے کہ اُنھیں 2002 کی طرح انتخابات میں کامیابی ملے۔
’’2002ء میں اور 2017ء میں بہت فرق ہے وہ حالات اب ایم ایم اے کے حق میں نہیں ہیں اور اس کی سب سے بڑی یہ ہے کہ آپ یہ دیکھیں کہ مذہبی حلقوں کی تنظیمیں اور جماعتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے اور بہت سی سخت گیر تنظیمیں بھی انتخابی سیاست میں آنا چاہتی ہیں اس کی وجہ سے جو پرانی روایتی جماعتیں ہیں انھیں خطرہ پیدا ہو رہا ہے کہ کہیں یہ جماعتیں ان کا ووٹ نا لے جائیں۔‘‘
حسن عسکری کا کہنا تھا کہ متحدہ مجلس عمل میں شامل جماعتوں کو خدشہ ہے کہ اگر اُنھوں نے اتحاد نہ کیا تو اُن کا ووٹ بینک کم ہو سکتا ہے۔
’’وہ خطرہ محسوس کر رہے ہیں کہ زیادہ مذہبی جماعتوں کے آنے سے کہیں وہ سائیڈ لائن نہ ہو جائیں، اس خطرے کی وجہ سے بھی اب ایم ایم اے کو زندہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اگرچہ اس کے امکانات کامیاب ہونے کے کم ہی ہیں۔‘‘
تجزیہ کار خادم حسین کہتے ہیں کہ فطری سیاسی اتحاد ہی بننے چاہیں۔
’’میرا خیال ہے کہ سیاسی انجینئیرنگ یا انتخابی انجینئیرنگ سے پاکستان کے اندر لوگوں کی نمائندگی کے حق کو بہت بڑا نقصان پہنچتا ہے، جس سے ادارے کمزور پڑ جاتے ہیں۔۔۔ کیوں کہ اس طرح وہ لوگ پالیسی نہیں بنا پاتے جن کو بنانی چاہیئں اور پھر ان کا نفاذ ہی نہیں ہو سکتا۔‘‘
متحدہ مجلس عمل میں جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمٰن) ، جمعیت علمائے پاکستان (نورانی)، مرکزی جمعیت اہل حدیث، جمعیت علمائے اسلام (سمیع الحق) اور اسلامی تحریک شامل ہیں۔
متحدہ مجلس عمل کے قائدین کا کہنا ہے کہ وہ اپنے پرانے انتخابی نشان کتاب اور منشور پر 2018 کے انتخاب میں حصہ لیں گے۔
جب کہ انھوں نے دیگر مذہبی جماعتوں سے بھی رابطے اور اُنھیں اس اتحاد میں شامل ہونے کے لیے آمادہ کرنے کی بھی بات کی۔
جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ ’’ہم نے ایم ایم اے کی بحالی پر اتفاق کیا ہے۔‘‘
متحدہ مجلس عمل 2002 میں قائم کی گئی تھی اور 2002 سے 2007 تک صوبہ خیبر پختونخواہ میں اس اتحاد کی حکومت تھی اور وزیراعلیٰ کا تعلق جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمٰن) سے تھا۔
لیکن 2008 کے عام انتخابات سے قبل ہی اندرونی اختلافات کے باعث اس اتحاد میں شامل جماعتوں نے الگ الگ الیکشن میں حصہ لیا۔
گزشتہ ہفتے ہی سنی مسلک سے تعلق رکھنے والی جماعتوں نے ’نظام مصطفٰی‘ کے نام سے ایک نیا گرینڈ سیاسی اتحاد تشکیل دینے کا اعلان کیا تھا، جو 2018 کے انتخابات میں حصہ لے گا۔
سابق وزیر برائے مذہبی اُمور حامد سعید کاظمی کو عارضی طور پر نئے سیاسی اتحاد کو صدر بنایا گیا ہے، بظاہر اس اتحاد کی تشکیل کا محرک حال ہی بننے والی سیاسی و مذہبی جماعت تحریک لبیک یا رسول اللہ کے علاوہ جماعت الدعوۃ کی غیر اندراج شدہ پارٹی ملی مسلم لیگ کی طرف سے لاہور اور پشاور کے ضمنی انتخابات میں بطور نئی سیاسی پارٹیوں کے خاطر خواہ ووٹوں کا حصول تھا۔