پاکستان کی وزارت خزانہ نے بھارتی ذرائع ابلاغ میں آنے والی ان اطلاعات کی تردید کی ہے کہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے مالی وسائل کی روک تھام سے متعلق فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے ذیلی ادار ے سے منسلک ایشیا پیسفک گروپ (اے پی جی) نے پاکستان کو 'بلیک لسٹ' میں شامل کر دیا گیا ہے۔
وزارت خزانہ کی طرف سے جمعے کو جاری ہونے والے ایک بیان میں ان اطلاعات کو غلط اور بے بنیاد قرار دیا گیا ہے۔
قبل ازیں بھارتی میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان کی طرف سے تنظیم کے طے کردہ ایکشن پلان پر پوری طرح عمل درآمد نہ کرنے کی وجہ سے رواں ہفتے ہونے والے ایشیا پیسفک گروپ کے اجلاس کے دوران پاکستان کو ایسی فالو اپ لسٹ میں شامل کیا گیا ہے جسے 'بلیک لسٹ' بھی کہا جا سکتا ہے۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایف اے ٹی ایف سے منسلک تنظیم کے 18 سے 23 جولائی کو آسٹریلیا کے شہر کینبرا میں ہونے والے اجلاس کے دوران یہ بات سامنے آئی تھی کہ ایشیا پیسفک گروپ کی طرف سے تجویز کردہ ایکشن پلان کے 40 نکات میں سے صرف 32 پر عمل درآمد ہو سکا ہے۔
دوسری طرف ایشیا پیسفک گروپ نے بھی ان اطلاعات کی تردید کی ہے۔
جمعے کو گروپ کی طرف سے جاری بیان میں بھی اس قسم کا کوئی ذکر نہیں تھا. تاہم, اس میں یہ ذکر موجود ہے کہ ایشیا پیسفک گروپ نے اس معاملے پر اجلاس میں غور کیا جائے گا۔
وزارت خزانہ کے بیان کے مطابق, جائزہ رپورٹ پرپیش رفت سے پاکستان ہر تین ماہ کے بعد ایشیا پیسیفک گروپ کو آگاہ کرے گا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایشیا پیسفک گروپ کسی بھی ملک کو بلیک لسٹ نہیں کر سکتا۔ یہ اختیار صرف فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس کو حاصل ہے۔
سینئر صحافی اور بین الاقوامی امور کےتجزیہ کار زاہد حسین کا کہنا ہے کہ ایشیا پیسفک گروپ کا دائر اختیار کسی بھی ملک کے لیے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی طرف سے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے مالی وسائل کی روک تھام کے لیے تجویز کردہ لائحہ عمل کا جائزہ لینا اور اس کی رپورٹ سے ایف اے ٹی ایف کو آگاہ رکھنا ہے۔
ان کے بقول، یہ گروپ کسی بھی ملک کو بلیک لسٹ کرنے کا مجاز نہیں۔