رسائی کے لنکس

دہشت گردی کے خلاف مذہبی حلقوں کی حمایت حاصل ہے: چودھری نثار


وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار
وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ مدارس کو ضابطہ کار میں لانے کے طریقے اور ان کے نظام سے متعلق اصلاحات بھی کی جارہی ہیں جب کہ قبائلی علاقوں میں موجود مدارس کو بھی اس قانون میں شامل کرنے کے لیے قانون سازی پر غور ہو رہا ہے۔

پاکستان کے وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے ایک بار پھر اس تاثر کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں صرف ان ہی دینی مدارس کے خلاف کارروائی کی جائے گی جن کے بارے میں کسی شرانگیزی یا دہشت گردی میں ملوث ہونے کے شواہد ملیں گے۔

ہفتہ کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ تمام مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے مذہبی اکابرین اور مدارس کے منتظمین نے حکومت کو اس ضمن میں اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا ہے۔

گزشتہ ماہ پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر ہوئے دہشت گرد حملے کے بعد ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے حکومت نے ایک قومی لائحہ عمل ترتیب دیا تھا جس میں دہشت گردی و انتہا پسندی کی کسی بھی طرح حمایت کرنے والوں کے خلاف کارروائی بھی شامل ہے۔

اس معاملے پر بعض مذہبی حلقوں کی طرف سے حکومت کو خاصی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا لیکن چودھری نثار علی خان نے واضح کیا کہ ملک کے نوے فیصد سے زائد مدارس اپنا کام احسن طریقے سے انجام دے رہے ہیں اور جن کے مشکوک ہونے سے متعلق شواہد ملیں گے ان کے خلاف کارروائی میں انھیں مذہبی اکابرین نے اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے۔

"تمام مکاتب فکر کے مدرسوں نے تنظیموں نے کہا ہے کہ کسی مدرسے میں کوئی کالی بھیڑ ہے تو آپ کارروائی کریں ہم آپ کے ساتھ ہیں بلکہ اس میں آپ کو سہولت فراہم کریں گے۔"

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ مدارس کو ضابطہ کار میں لانے کے طریقے اور ان کے نظام سے متعلق اصلاحات بھی کی جارہی ہیں جب کہ قبائلی علاقوں میں موجود مدارس کو بھی اس قانون میں شامل کرنے کے لیے قانون سازی پر غور ہو رہا ہے۔

پاکستان میں ایک عرصے سے فرقہ وارانہ بنیادوں پر کشیدگی پائی جاتی ہے جس میں اکثر شیعہ اور سنی مسالک کے درمیان خوں ریز تصادم بھی دیکھنے میں آچکا ہے۔

چودھری نثار علی خان نے کہا کہ فرقہ واریت کو ختم کرنے کے لیے بھی اصلاحات کی جائیں گی اور اس میں انھیں امید ہے کہ مذہبی حلقے ان کا ساتھ دیں گے۔

پاکستان کو گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے دہشت گردی و انتہا پسندی کا سامنا ہے جس میں اب تک اس کے پچاس ہزار کے لگ بھگ شہری ہلاک ہوچکے ہیں اور معیشت کو اربوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔

ملک میں دینی مدارس کو انتہا پسندی کا مرکز قرار دیتے ہوئے ایک عرصے سے مختلف حلقوں کی طرف سے ان کو ضابطے میں لانے کے مطالبات سامنے آتے رہے ہیں لیکن بظاہر مذہبی جماعتوں کے اثرورسوخ کی وجہ سے ماضی میں حکومتیں اس بابت کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں کرسکیں۔

تاہم گزشتہ ماہ اسکول پر ہوئے حملے میں 134 بچوں سمیت 150 افراد کی ہلاکت کے بعد ملک کی سیاسی و عسکری قیادت کے علاوہ اکثریتی حلقے پاکستان سے دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے موثر اقدامات کرنے کی پرزور حمایت کر رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG