فطری حسن سے مالا مال وادی سوات سے تعلق رکھنے والی 17 سالہ ملالہ یوسفزئی گوکہ عالمی سطح پر ایک جانی پہچانی شخصیت بن چکی ہیں لیکن امن کا نوبیل انعام ملنے کے بعد نہ صرف ملک اور ان کے علاقے کے مثبت تشخص کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں مدد ملی بلکہ اس سے بچوں کے حق حصول علم کے مقصد کو بھی تقویت حاصل ہوگی۔
ان خیالات کا اظہار سماجی و فلاحی سرگرمیوں سے وابستہ افراد اور عام شہریوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کیا۔
پاکستان کے لیے پہلا آسکر ایوارڈ جیتنے والی خاتون فلسماز اور خواتین پر تیزاب کے حملوں کے خلاف آواز بلند کرنے والی شرمین عبید چنائے کہتی ہیں۔
"آج پاکستان کے لیے ایک بہت فخر کی بات ہے کہ ایک نوجوان لڑکی نے کو پاکستان سے امن کا نوبیل انعام جیتا ہے اور ملک کا نام روشن کیا ہے لیکن سب سے ضروری یہ ہے کہ جس چیز کے لیے اس نے یہ انعام جیتا ہے وہ ایسی چیز ہے کہ پاکستان کو اب اس کی پوری روح کے ساتھ اس پر عمل کرنا چاہیے وہ یہ کہ ہر لڑکی کا فرض بنتا ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرے۔"
سوات ہی سے تعلق رکھنے والی ایک سماجی کارکن عذرا نفیس یوسفزئی کا کہنا تھا کہ ملالہ کو ملنے والے نوبیل انعام سے خاص طور پر تعلیم کے فروغ میں قابل ذکر پیش رفت ہوسکے گی۔
"سوات کا نام دہشت گردی اور طالبان کی وجہ سے سنا جاتا تھا اب جو اس کا نام آئے گا تو اس کا ایک مثبت تشخص سامنے آئے گا کہ اس خطے سے صرف انتہا پسندی اور دہشت گردی ہی نہیں ہے بلکہ تعلیم کے لیے آواز اٹھانے والی بچیاں بھی ہیں یہاں پر۔"
ملالہ یوسفزئی کو گزشتہ سال بھی اس انعام کے لیے نامزد کیا گیا تھا لیکن وہ یہ اعزاز حاصل نہیں کرسکی تھیں۔ تاہم اُس وقت بھی پورے ملک میں ان کی نامزدگی کو کسی اعزاز سے کم تصور نہیں کیا گیا تھا۔
وفاقی دارالحکومت کے ایک مصروف کاروباری مرکز میں موجود لوگوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ملالہ کو نوبیل انعام ملنے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے پاکستان کا تشخص بہتر ہوا ہے اور عالمی سطح پر لوگوں کو یہ ماننا پڑے گا کہ یہاں بھی ایسے باہمت لوگ موجود ہیں۔
ملالہ اس سے قبل بھی مختلف بین الاقوامی اعزازات حاصل کر چکی ہیں۔
یہ کسی بھی پاکستانی کو ملنے والا دوسرا نوبیل انعام ہے۔ اس سے پہلے 1964ء میں طبیعات کے شعبے میں ڈاکٹر عبدالسلام کو یہ انعام دیا گیا تھا۔