پاکستان میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے طالبہ کے ساتھ جنسی زیادتی کے مرتکب مدرسے کے ایک منتظم اور اس کے دو ساتھیوں کو قید کی سزائیں سنائی ہیں۔
شمال مغربی شہر مانسہرہ میں گزشتہ سال 12 مئی کو کالج کے سال اول کی ایک طالبہ کو اس کی ایک ہم جماعت نے ورغلا کر ایک کار میں سوار کیا جس میں پہلے سے موجود دو مردوں نے طالبہ کو چلتی گاڑی میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔
جمعرات کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے جرم کا ارتکاب کرنے والے قاری نصیر اور اس کے ساتھی محمد فیضان کو 14، 14 سال قید بامشقت جب کہ تیسرے شخص حسین مشتاق کو دس سال قید کی سزا سنائی۔
طالبہ کو ورغلا کر لانے والی لڑکی انعم کو عدالت نے بری کر دیا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ مشتاق نے لڑکی کے ساتھ جنسی زیادتی نہیں کی لیکن وہ اس واردات کے دوران گاڑی چلاتا رہا اور مجرموں کی مدد کی اس لیے اسے دس سال قید کی سزا سنائی گئی۔
مانسہرہ کے ضلعی پولیس افسر اعجاز خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ واقعے کی حساس نوعیت کے پیش نظر پولیس نے شروع ہی سے اس تحقیقات میں انتہائی احتیاط برتی جس کی وجہ سے مقدمے کو منطقی انجام تک پہنچانے میں خاصی مدد ملی۔
پاکستان میں خواتین کے خلاف تشدد یا جنسی زیادتی کے واقعات کوئی غیر معمولی بات نہیں لیکن یہ واقعہ اس لحاظ سے اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ تھا کہ اس میں مجرموں نے چلتی گاڑی میں لڑکی کے ساتھ زیادتی کی اور پھر اسے ایک علاقے میں کار سے باہر پھینک کر فرار ہو گئے تھے۔