پاکستان رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل اور بھارتی بارڈ سکیورٹی فورس ’بی ایس ایف‘ کے سربراہ کے درمیان سرحدی کشیدگی کے معاملے پر بات چیت بدھ کو نئی دہلی میں ہو گی۔
دونوں ملکوں کے قومی سلامتی کے مشیروں کے درمیان گزشتہ ماہ ہونے والی ملاقات عین وقت پر منسوخ ہو گئی تھی، کیوں کہ بات چیت کے ایجنڈے پر دونوں جانب اختلافات تھے۔
پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کے درمیان جولائی میں روس کے شہر ’اوفا‘ میں ہونے والی ملاقات میں دونوں ملکوں کے قومی سلامتی کے مشیروں کے درمیان ملاقات کے علاوہ رینجرز اور ’بی ایس ایف‘ کے کمانڈروں کے درمیان بات چیت پر بھی اتفاق کیا گیا تھا۔
پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر سرتاج عزیز نے کہا کہ رینجرز اور ’بی ایس ایف‘ کے کمانڈروں کے درمیان ملاقات ’اوفا‘ میں طے پانے والے ایجنڈے کے تحت ہی ہو رہی ہے۔
واضح رہے کہ حالیہ مہینوں میں کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے علاوہ ورکنگ باؤنڈری پر دونوں ملکوں کی سرحدی افواج کے درمیان فائرنگ اور گولہ باری کے تبادلے میں کئی شہری ہلاک اور درجنوں زخمی ہو چکے ہیں۔
سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ کشیدگی کی اس صورت حال میں یہ ملاقات بہت اہم ہے کیوں کہ پاکستان چاہتا ہے کہ سرحد پر فائر بندی کے 2003ء کے معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔
’’مختلف تجاویز ہیں یعنی جو زیادہ بڑے ہتھیار استعمال ہوتے ہیں اُن کے استعمال کا اختیار اعلیٰ سطح کے کمانڈروں کی اجازت سے ہو، اس کے علاوہ نگرانی کے عمل کو کیسے بہتر کیا جائے اور سرحدی کمانڈروں کی سطح پر فلیگ میٹنگ جو ہوتی ہیں اُن کے انعقاد پر بات چیت کی جائے گی۔‘‘
سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ بھارت پاکستان سے اپنی شرائط پر مذاکرات کرنا چاہتا ہے۔
’’لیکن ہمارا موقف بالکل واضح ہے کہ جب تک تمام مسائل بشمول کشمیر پر بات چیت نہیں ہو گی تو مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔‘‘
بھارت کا موقف ہے کہ دہشت گردی سے جڑے معاملات پر مذاکرات کے بعد ہی اعتماد کی فضا پیدا ہو سکتی ہے، جس کے بعد دیگر اُمور پر مذاکرات کیے جا سکتے ہیں۔
دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی پر عالمی برداری بشمول امریکہ کی طرف سے بھی تحفظات کا اظہار کیا جا چکا ہے۔