محمد عارف احمدی افغانستان سے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے، ان کی کوئٹہ آمد کی وجہ افغانستان کے کشیدہ حالات نہیں بلکہ ان کے بیٹے مرتضی احمدی کو دنیائے فٹ بال کے معروف کھلاڑی میسی سے ملاقات کی خواہش کے بعد ملنے والی دھمکیاں تھیں، جس کی وجہ سے وہ اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
پانچ سالہ مرتضیٰ احمدی کا تعلق افغانستان کے علاقے غزنی کے ایک غریب گھرانے سے ہے۔ اس بچے نے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس کے ذریعے اس وقت شہرت پائی جب پلاسٹک بیگ سے بنی ایک شرٹ پہنے اس کی تصویر منظر عام پر آئی۔
مرتضیٰ کے بھائی نے نیلی اور سفید دھاریوں والے پلاسٹک بیگ کو کاٹ کر ایک شرٹ بنائی جس پر قلم سے میسی اور نمبر 10 لکھا تھا۔
مرتضٰی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ وہ میسی سے ملنے کا خواہشمند ہے۔
کوئٹہ کے علاقے ہزارہ ٹاؤن میں مقیم مرتضیٰ کے والد محمد عارف احمدی نے کہا کہ وہ افغانستان سے پہلے اسلام آباد آئے لیکن وہاں رہائش کے لیے اخراجات برداشت کرنا ان کے لیے ممکن نہیں تھا۔
’’میں ہجرت تو نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔ لیکن جب مجھے دھمکی آمیز ٹیلی فون آنے لگے تو میں نے اپنے بیٹے مرتضیٰ احمدی کی خاطر اہل خانہ سمیت ہجرت کی ۔۔ وہ لوگ مجھ سے ایک لاکھ ڈالر کا تقاضہ کر رہے تھے ۔‘‘
تمام کوششوں کے باوجود مرتضیٰ کی میسی سے ملاقات تو نہیں ہو سکی ہے البتہ میسی کی طرف سے بھیجی گئی شرٹس اُسے مل گئی ہیں۔
واحد احمدی پلاسٹک میسی کے چچا زاد بھائی ہے ان کے مطابق مرتضیٰ کے دو بھائی اور دو بہنیں ہیں ان کے والد افغانستان میں کھیتی باڑی کرتے تھے اب ان کے پاس روز گار کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔
’’یہ لوگ اب دوبارہ کبھی افغانستان نہیں جا سکتے ہیں۔ ان کے ساتھ ایک اور شخص بھی ہے جن کا نام بسم اللہ ہے وہ افغانستان میں میڈیا سے ملاقات میں ان کی رہنمائی کرتا تھا، اب ان لوگوں نے اقوام متحدہ سے اپیل کی ہے کہ انہیں بیرون ملک پناہ مل جائے‘‘
مرتضیٰ میسی کو اب بھی امید ہے ایک دن اس کی ملاقات فٹ بالر میسی سے ضرور ہو گی۔