کسی کے وہم وگمان میں نہیں تھا کہ آٹھ اکتوبر2005ء کو آنے والا تباہ کن زلزلہ کئی ہنستے بستے شہروں اور دیہاتوں کو اجاڑ کر80ہزار افراد کی ہلاکت کا سبب بنے گا۔
اس سانحے نے جہاں ملک کو اس کی تاریخ کی ایک بدترین آفت سے دوچارکیا وہیں اس حقیقت کو بھی عیاں کیا کہ اس سے نمٹنے کے لیے انتظامی سطح پر درکار حکمت عملی،وسائل اور تربیت یافتہ افراد کا فقدان ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ زلزلے کے فوراً بعد بڑی تعداد میں رضاکاروں نے متاثرہ علاقوں کا رخ کیا اور متاثرین کو امداد پہنچائی جب کہ امریکہ اور اس کے شنوک ہیلی کاپٹروں کی بروقت امداد نے بھی ملک کو مصیبت کی اس گھڑی کا مقابلہ کرنے میں بہت حد تک مدد دی۔
زلزلے کے پانچ سال گزرنے کے بعد پاکستانی حکام کا دعویٰ ہے کہ ملک کے پاس اب کسی بھی طرح کی تباہی سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے ۔ حکام کے مطابق شورش زدہ علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے افراد کو سنبھالنے کے تجربے اور نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی جیسے اداروں کے قیام سے یہ استطاعت حاصل ہوگئی ہے کہ سیلاب زدگان کو بھی بہتر مدد فراہم کی جائے اور ان کی جلد بحالی کو یقینی بنایا جائے۔اگرچہ حکومت کو اس ضمن میں اب تک کی کارکردگی پر کڑی تنقید کا سامنا ہے۔
آٹھ اکتوبر کے زلزلے کی پانچویں برسی کے سلسلے میں اسلام آباد میں منعقد ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے چیئر مین امتیاز عنایت الہی کا کہنا تھا کہ متعلقہ اداروں کے امدادی یونٹ پہلے کی نسبت جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس ہیں اور ان کے پاس تربیت یافتہ افرادی قوت بھی موجود ہے۔
اس موقع پر آگ بجھانے والے عملے اور دوسرے امدادی یونٹوں نے ایک نمائش کے دوران اپنی سرگرمیوں کا مظاہرہ بھی کیا۔
آٹھ اکتوبر کے زلزلے میں اسلام آباد میں واقع مارگلہ اپارٹمنٹس کا ایک حصہ بھی منہدم ہوگیا تھا جس میں 72افراد ہلاک ہوئے۔ جزوی طور پر تباہ ہونے والی یہ خالی عمارت اب بھی اپنی جگہ موجود ہے اور آنے جانے والے لوگوں کو ماضی کے سانحے کی یاد دلاتی ہے کیونکہ انتظامیہ کی طرف سے اس کے مستقبل کے بارے میں ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔