پشتون تحفظ موومنٹ نے اپنے اعلان کردہ آٹھ اپریل کے جلسے کے لیے عوامی رابطہ مہم کو تیز کر دیا ہے اور اتوار کو سرحدی علاقے لنڈی کوتل میں تین مختلف مقامات پر اس تحریک کے حامیوں نے ریلیاں نکالیں۔
پی ٹی ایم نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ آٹھ اپریل کو پشاور میں ایک بڑا جلسہ کرے گی جس میں شرکت کے لیے اس نے سیاسی جماعتوں، وکلا اور طلبا سمیت سول سوسائٹی کو شرکت کی دعوت بھی دے رکھی ہے۔
لیکن جیسے جیسے اس تحریک کا دائرہ بڑھتا جا رہا ہے ویسے ہی حال ہی میں اس کے خلاف بھی خاص طور پر انٹرنیٹ پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے ذریعے آواز بلند ہوتی دیکھی جا رہی ہے۔
ایسی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ قبائلی علاقوں کی انتظامیہ خصوصاً جنوبی وزیرستان کے قبائلیوں کو اس تحریک سے دور رہنے کی ہدایت کر رہی ہے۔ اس بارے میں قبائلی حکام کی طرف سے نہ تو تصدیق اور نہ ہی تردید سامنے آئی لیکن ذرائع ابلاغ میں ایسی تحریریں گردش کر رہی ہیں جن میں جنوبی وزیرستان کے احمد زئی قبائل کو پشتون تحفظ موومنٹ کے مطالبات کی حمایت نہ کرنے کا کہا گیا۔
پشتون تحفظ موومنٹ کے ایک سرکردہ رہنما علی وزیر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ان کے علم میں نہیں کہ تحریک کی مخالف میں کوئی جرگہ منعقد ہوا ہو لیکن ان کے بقول سوشل میڈیا پر تحریک کے خلاف مہم دیکھی گئی ہے۔
"بات اب پروپیگنڈے سے آگے نکل چکی ہے، ایسے پروپیگنڈے ہمیں مزید تقویت دے رہے ہیں۔۔۔ہم نے آج بھی لنڈی کوتل میں تین ریلیاں نکالیں یہاں پر جو انھوں نے خوف طاری کر رکھا تھا اس کی فضا کو ہم نے ختم کیا ہے۔"
پشتون تحفظ موومنٹ کا موقف ہے کہ وہ پشتونوں کے ماورائے عدالت قتل کی تحقیقات کے لیے کمیشن تشکیل دیا جائے اور قبائلیوں کے لاپتا افراد کو عدالتوں میں پیش کیا جائے اور قبائلی علاقوں میں غیر ضروری کرفیو کو ختم کیا جائے۔