بلوچستان کے معروف ماہر نفسیات ڈاکٹر غلام رسول کو اغوا کر نے کے واقعے کے خلاف صوبے بھر کے تمام 31 سرکاری اور کوئٹہ میں تمام نجی اسپتالوں میں ڈاکٹروں نے ایک ہفتے میں دو روز کے وقفے کے بعد ایک بار پھر غیر معینہ مدت تک ہڑتال شروع کر دی ہے۔
صوبائی دارالحکومت کی مختلف شاہراہوں سے گزرنے والے سینکڑوں سینیئر مرد و خواتین ڈاکٹروں پر مشتمل احتجاجی جلوس میں معروف ماہر نفیسات غلام رسول کی بازیابی کا مطالبہ کیا گیا۔
مظاہرین کوئٹہ شہر میں بالخصوص اور بلوچستان میں بالعموم اغوا برائے تاوان کی بڑھتی ہوئی ان وارداتوں کو روکنے میں ناکامی پر انتظامیہ بشمول قانون نافذ کرنے والے اداروں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے ان کے خلاف نعرے لگاتے رہے۔
ڈاکٹروں کی ہڑتال کے باعث صوبائی دارالحکومت میں چار سرکاری اسپتالوں میں تمام ’او پی ڈیز‘ بند ہیں جبکہ نجی اسپتالوں میں بھی ڈاکٹر کسی مریض کو خدمات فراہم نہیں کر رہے۔
احتجاجی جلوس سے قبل سینیئر ڈاکٹروں نے سول اسپتال میں ایک اجلاس بھی منعقد کیا۔
اجلاس کے بعد پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی بلوچستان شاخ کے صدر ڈاکٹر سلطان ترین نے بتایا کہ شرکا نے ڈاکٹرغلام رسول کی بازیابی تک جمعرات سے ہنگامی طبی امداد کے لیے دستیاب ڈاکٹروں کی خدمات معطل کرنے کےعلاوہ سرکاری ملازمتوں سے اجتماعی طور پر مستعفی ہونے پر بھی اتفاق کیا اور اس ضمن میں حتمی فیصلے کا اعلان جلد متوقع ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر خود ڈاکٹروں کو تحفظ حاصل نہیں تو مریضوں کی خدمت کیسے کی جاسکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ دو ہفتوں سے بھی کم وقت میں دو سینیئر اورمعروف ڈاکٹروں کو اغوا کیا گیا مگرحکومت نے اس سلسلے میں اب تک کوئی موثر کارروائی نہیں کی ہے۔
انہوں نے وزیر اعلیٰ بلوچستان اور صوبائی کابینہ کے دیگر ارکان پر اغوا کاروں کی پشت پناہی کے الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹروں کے احتجاج کے بعد جب پولیس کسی اغوا کار، ڈاکو اور چور کو گرفتار کرتی ہے تو وزیراعلیٰ ہاؤس سے ہی اُس اغوا کار ڈاکو اور چور کی رہائی کے لیے فون کیے جاتے ہیں ۔
صوبائی حکومت نے ڈاکٹر غلام رسول کے اغوا کی مذمت کرتے ہوئےان کی بازیابی کے لیے بلوچستان کے سیکرٹری داخلہ کی سربراہی میں دو اعلیٰ سطحی کمیٹیاں تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے۔
کوئٹہ کے ایک معروف سر جن ڈاکٹر دین محمد بنگلزئی کو بھی بائیس جون کو مستونگ سے اغوا کیا گیا تھا جس کے خلاف ڈاکٹروں نے بلوچستان کے تمام سر کاری اور کو ئٹہ کے نجی اسپتالوں میں ایک ہفتے تک مکمل ہڑتال کا اعلان کر دیا تھا۔
تاہم ڈاکٹر دین محمد کو اغوا کار دو روز قبل ان کے گھر کے قر یب چھوڑ کر چلے گئے۔ اغوا کاررواں نے ان کے خاندان سے رابطہ کر کے 8 کروڑ روپے تاوان کا مطالبہ کیا تھا لیکن تاحال نا تو ڈاکٹر دین محمد اور نا ہی دیگر ذرائع سے یہ معلوم ہو سکا ہے کہ ان کی رہائی کیسے ممکن ہوئی۔
سُپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے بلوچستان کے لاپتہ افراد سے متعلق مقدمے کی ایک حالیہ سماعت کے دوران کہا تھا کہ بظاہر بلوچستان میں اغوا برائے تاوان ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔
انھوں نے صوبائی کابینہ کے وزراء کے ایک دوسرے پراغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث ہونے کے الزامات پر تشویش کا اظہار کر تے ہوئے ان وزراء کے خلاف سخت کارروائی کا حکم بھی دیا تھا جس پر حکام نے آج تک کو ئی عمل درآمد نہیں کیا ہے۔
صوبائی دارالحکومت کی مختلف شاہراہوں سے گزرنے والے سینکڑوں سینیئر مرد و خواتین ڈاکٹروں پر مشتمل احتجاجی جلوس میں معروف ماہر نفیسات غلام رسول کی بازیابی کا مطالبہ کیا گیا۔
مظاہرین کوئٹہ شہر میں بالخصوص اور بلوچستان میں بالعموم اغوا برائے تاوان کی بڑھتی ہوئی ان وارداتوں کو روکنے میں ناکامی پر انتظامیہ بشمول قانون نافذ کرنے والے اداروں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے ان کے خلاف نعرے لگاتے رہے۔
ڈاکٹروں کی ہڑتال کے باعث صوبائی دارالحکومت میں چار سرکاری اسپتالوں میں تمام ’او پی ڈیز‘ بند ہیں جبکہ نجی اسپتالوں میں بھی ڈاکٹر کسی مریض کو خدمات فراہم نہیں کر رہے۔
احتجاجی جلوس سے قبل سینیئر ڈاکٹروں نے سول اسپتال میں ایک اجلاس بھی منعقد کیا۔
اجلاس کے بعد پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی بلوچستان شاخ کے صدر ڈاکٹر سلطان ترین نے بتایا کہ شرکا نے ڈاکٹرغلام رسول کی بازیابی تک جمعرات سے ہنگامی طبی امداد کے لیے دستیاب ڈاکٹروں کی خدمات معطل کرنے کےعلاوہ سرکاری ملازمتوں سے اجتماعی طور پر مستعفی ہونے پر بھی اتفاق کیا اور اس ضمن میں حتمی فیصلے کا اعلان جلد متوقع ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر خود ڈاکٹروں کو تحفظ حاصل نہیں تو مریضوں کی خدمت کیسے کی جاسکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ دو ہفتوں سے بھی کم وقت میں دو سینیئر اورمعروف ڈاکٹروں کو اغوا کیا گیا مگرحکومت نے اس سلسلے میں اب تک کوئی موثر کارروائی نہیں کی ہے۔
انہوں نے وزیر اعلیٰ بلوچستان اور صوبائی کابینہ کے دیگر ارکان پر اغوا کاروں کی پشت پناہی کے الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹروں کے احتجاج کے بعد جب پولیس کسی اغوا کار، ڈاکو اور چور کو گرفتار کرتی ہے تو وزیراعلیٰ ہاؤس سے ہی اُس اغوا کار ڈاکو اور چور کی رہائی کے لیے فون کیے جاتے ہیں ۔
صوبائی حکومت نے ڈاکٹر غلام رسول کے اغوا کی مذمت کرتے ہوئےان کی بازیابی کے لیے بلوچستان کے سیکرٹری داخلہ کی سربراہی میں دو اعلیٰ سطحی کمیٹیاں تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے۔
کوئٹہ کے ایک معروف سر جن ڈاکٹر دین محمد بنگلزئی کو بھی بائیس جون کو مستونگ سے اغوا کیا گیا تھا جس کے خلاف ڈاکٹروں نے بلوچستان کے تمام سر کاری اور کو ئٹہ کے نجی اسپتالوں میں ایک ہفتے تک مکمل ہڑتال کا اعلان کر دیا تھا۔
تاہم ڈاکٹر دین محمد کو اغوا کار دو روز قبل ان کے گھر کے قر یب چھوڑ کر چلے گئے۔ اغوا کاررواں نے ان کے خاندان سے رابطہ کر کے 8 کروڑ روپے تاوان کا مطالبہ کیا تھا لیکن تاحال نا تو ڈاکٹر دین محمد اور نا ہی دیگر ذرائع سے یہ معلوم ہو سکا ہے کہ ان کی رہائی کیسے ممکن ہوئی۔
سُپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے بلوچستان کے لاپتہ افراد سے متعلق مقدمے کی ایک حالیہ سماعت کے دوران کہا تھا کہ بظاہر بلوچستان میں اغوا برائے تاوان ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔
انھوں نے صوبائی کابینہ کے وزراء کے ایک دوسرے پراغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث ہونے کے الزامات پر تشویش کا اظہار کر تے ہوئے ان وزراء کے خلاف سخت کارروائی کا حکم بھی دیا تھا جس پر حکام نے آج تک کو ئی عمل درآمد نہیں کیا ہے۔