پاکستان کے ساحلی شہر کراچی میں رواں ماہ ایک مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک کیے گئے قبائلی نوجوان نقیب اللہ کے قاتلوں کی جلد از جلد گرفتاری اور اُنھیں سزا دلوانے کے مطالبات کے ساتھ محسود قبائل کا ایک قافلہ جمعرات کو اسلام آباد پہنچا ہے۔
واضح رہے کہ نقیب اللہ کا تعلق جنوبی وزیرستان کے محسود قبیلے سے تھا اور اُن کے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کے بعد سوشل میڈیا اور پھر دیگر ذرائع ابلاغ میں موثر آواز بلند کی گئی۔
یہ قافلہ 26 جنوری کوڈیرہ اسماعیل خان سے روانہ ہوا تھا اور اسلام آباد پہنچنے پر اس میں شریک افراد نے نیشنل پریس کلب کے باہر اپنا احتجاج شروع کیا۔
اس احتجاج میں شامل افراد کا کہنا ہے کہ وہ نقیب اللہ کے قاتلوں کی جلد از جلد گرفتاری اور اُن کو قرار واقع سزا دلوانا چاہتے ہیں۔
نقیب اللہ محسود کے قتل کے معاملے پر سپریم کورٹ نے بھی از خود نوٹس لے رکھا ہے اور جمعرات کو چیف جسٹس ثاقب نثار نے سول اور فوجی اداروں کو نقیب اللہ محسود قتل کے ملزم پولیس افسر راؤ انوار کی گرفتاری کے لیے پولیس کے ساتھ مکمل تعاون کا حکم دیا ہے۔
نقیب اللہ کے قتل کے بعد راؤ انوار کو اُن کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا اور پولیس کی ایک تحقیقاتی ٹیم اس معاملے کی تفتیش کر رہی ہے۔
راؤ انوار روپوش ہیں اور اُنھیں تلاش کرنے کی کوششیں جاری ہیں جن میں تاحال پولیس کو کامیابی نہیں ملی ہے۔
راؤ انوار نے 13 جنوری کو میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں چار مبینہ دہشت گردوں کو شاہ لطیف کے علاقے میں ایک پولیس مقابلے میں مارنے کا دعویٰ کیا تھا جن میں نسیم اللہ عرف نقیب اللہ بھی شامل تھا۔
مقتول کے خاندان کا دعویٰ ہے کہ نقیب اللہ 3 جنوری کو سہراب گوٹھ کے علاقے سے لاپتا ہوا جسے بعد ازاں جعلی پولیس مقابلے میں قتل کر دیا گیا۔