اسلام آباد —
پاکستان میں تین نومبر 2007ء میں فوجی صدر پرویز مشرف کی طرف سے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے اقدام کو چھ سال گزر گئے ہیں اور اتوار کو اس دن کی مناسبت سے وکلاء اور صحافتی تنظیموں نے آئین کی بالادستی اور اظہار رائے کی آزادی کے لیے اپنی جدوجہد کی یاد میں خصوصی تقاریب کا اہتمام کیا۔
بعض قانون دانوں کا کہنا ہے کہ ان چھ سالوں میں ملک میں آئین و قانون کی بالادستی کے ضمن میں خاطر خواہ پیش رفت تو دیکھنے میں آئی ہے لیکن بعض مبصرین کا خیال ہے کہ بہت سے معاملات میں آزاد عدلیہ اور متحرک میڈیا بعض معاملات میں اپنی حدود سے تجاوز کرتا بھی نظر آتا ہے۔
سابق نگران وفاقی وزیراطلاعات اور سینیئر صحافی عارف نظامی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حالات میں نومبر 2007ء کی نسبت بہتری تو آئی لیکن بعض معاملات میں عدلیہ اور ذرائع ابلاغ کی مداخلت کچھ نامناسب انداز میں دیکھی جانے لگی ہے۔
’’ایک تو یہ عدلیہ کچھ ذرا زیادہ تجاوز کر رہی ہے اپنے اختیارات سے مثلاً خارجہ پالیسی میں بھی جیسے پشاور ہائی کورٹ کہتی ہے کہ ڈرون حملے بند ہونے چاہیئں اور نیٹو سپلائی کی بھی بات کرتی ہے پھر ایک شکایت لوگوں کو میڈیا کے بارے میں ہے کہ وہ ضرورت سے زیادہ آزاد ہے بہرحال یہ توازن وقت کے ساتھ ساتھ آئے گا۔‘‘
تین نومبر 2007ء کو اس وقت کے فوجی صدر پرویز مشرف نے آئین کو معطل کرکے سپریم کورٹ اور اعلیٰ عدلیہ کے تقریباً ساٹھ ججوں کو نظر بند کردیا تھا جب کہ ذرائع ابلاغ بھی بہت سی پابندیوں کی زد میں آگئے تھے۔
مشرف نے 2008ء میں عہدہ صدارت چھوڑنے کے بعد اگلے برس خودساختہ جلاوطنی اختیار کر لی تھی اور رواں سال وطن واپسی پر اپنے خلاف قائم مقدمات میں انھیں عدالتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں ایک تین نومبر کو ججوں کو نظر بند کرنے کا مقدمہ بھی شامل ہے جس میں ان کی ضمانت ہو چکی ہے۔
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل اور عدلیہ کی آزادی کی تحریک میں شامل ایڈووکیٹ اکرام چودھری عدلیہ کی دوسرے ریاستی اداروں میں مداخلت کے تاثر کو غلط قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ عدالتیں آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنا کام کر رہی ہیں۔
’’ آئین عدلیہ کو اجازت دیتا ہے کہ جہاں لوگوں کے بنیادی حقوق پامال ہورہے ہیں چاہے اس کا تعلق مقننہ سے ہے اقتصادیاتی شعبے سے یا فوجی اداروں کے اندر یا دیگر حوالوں سے تو پھر اس میں عدلیہ کے پاس کوئی چارہ نہیں کہ وہ آئین کے مطابق اس ضمن میں آگے بڑھے۔‘‘
تاہم مبصرین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ تمام تر مشکلات کے باوجود ان چھ سالوں میں عدلیہ اور میڈیا کی بدولت عوام میں انسانی حقوق سمیت سیاسی و معاشرتی شعور گزشتہ برسوں کی نسبت بہت حد تک اجاگر ہوا ہے۔
اس دوران ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک جمہوری منتخب حکومت نے اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کی اور پھر جمہوری انداز میں اقتدار دوسری منتخب حکومت کو منتقل کیا گیا۔
ملک کی سیاسی و عسکری قیادت کے علاوہ عدالت عظمیٰ کی طرف سے بھی ملک میں آئین و قانون کی بالادستی کے عزم کو دہرایا جا چکا ہے۔
بعض قانون دانوں کا کہنا ہے کہ ان چھ سالوں میں ملک میں آئین و قانون کی بالادستی کے ضمن میں خاطر خواہ پیش رفت تو دیکھنے میں آئی ہے لیکن بعض مبصرین کا خیال ہے کہ بہت سے معاملات میں آزاد عدلیہ اور متحرک میڈیا بعض معاملات میں اپنی حدود سے تجاوز کرتا بھی نظر آتا ہے۔
سابق نگران وفاقی وزیراطلاعات اور سینیئر صحافی عارف نظامی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حالات میں نومبر 2007ء کی نسبت بہتری تو آئی لیکن بعض معاملات میں عدلیہ اور ذرائع ابلاغ کی مداخلت کچھ نامناسب انداز میں دیکھی جانے لگی ہے۔
’’ایک تو یہ عدلیہ کچھ ذرا زیادہ تجاوز کر رہی ہے اپنے اختیارات سے مثلاً خارجہ پالیسی میں بھی جیسے پشاور ہائی کورٹ کہتی ہے کہ ڈرون حملے بند ہونے چاہیئں اور نیٹو سپلائی کی بھی بات کرتی ہے پھر ایک شکایت لوگوں کو میڈیا کے بارے میں ہے کہ وہ ضرورت سے زیادہ آزاد ہے بہرحال یہ توازن وقت کے ساتھ ساتھ آئے گا۔‘‘
تین نومبر 2007ء کو اس وقت کے فوجی صدر پرویز مشرف نے آئین کو معطل کرکے سپریم کورٹ اور اعلیٰ عدلیہ کے تقریباً ساٹھ ججوں کو نظر بند کردیا تھا جب کہ ذرائع ابلاغ بھی بہت سی پابندیوں کی زد میں آگئے تھے۔
مشرف نے 2008ء میں عہدہ صدارت چھوڑنے کے بعد اگلے برس خودساختہ جلاوطنی اختیار کر لی تھی اور رواں سال وطن واپسی پر اپنے خلاف قائم مقدمات میں انھیں عدالتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں ایک تین نومبر کو ججوں کو نظر بند کرنے کا مقدمہ بھی شامل ہے جس میں ان کی ضمانت ہو چکی ہے۔
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل اور عدلیہ کی آزادی کی تحریک میں شامل ایڈووکیٹ اکرام چودھری عدلیہ کی دوسرے ریاستی اداروں میں مداخلت کے تاثر کو غلط قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ عدالتیں آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنا کام کر رہی ہیں۔
’’ آئین عدلیہ کو اجازت دیتا ہے کہ جہاں لوگوں کے بنیادی حقوق پامال ہورہے ہیں چاہے اس کا تعلق مقننہ سے ہے اقتصادیاتی شعبے سے یا فوجی اداروں کے اندر یا دیگر حوالوں سے تو پھر اس میں عدلیہ کے پاس کوئی چارہ نہیں کہ وہ آئین کے مطابق اس ضمن میں آگے بڑھے۔‘‘
تاہم مبصرین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ تمام تر مشکلات کے باوجود ان چھ سالوں میں عدلیہ اور میڈیا کی بدولت عوام میں انسانی حقوق سمیت سیاسی و معاشرتی شعور گزشتہ برسوں کی نسبت بہت حد تک اجاگر ہوا ہے۔
اس دوران ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک جمہوری منتخب حکومت نے اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کی اور پھر جمہوری انداز میں اقتدار دوسری منتخب حکومت کو منتقل کیا گیا۔
ملک کی سیاسی و عسکری قیادت کے علاوہ عدالت عظمیٰ کی طرف سے بھی ملک میں آئین و قانون کی بالادستی کے عزم کو دہرایا جا چکا ہے۔