پاکستان کی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ سیاسی اختلافات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے اعلان کردہ 14 اگست کو وفاقی دارالحکومت میں لانگ مارچ کے دن قریب آنے کے ساتھ ہی حکومت کی طرف سے اس معاملے کو سیاسی طور پر حل کرنے کے لیے کوششوں میں بظاہر تیزی آئی ہے۔
وفاقی وزیر برائے ریلوے اور مسلم لیگ (ن) کے ایک سینیئر رہنما خواجہ سعد رفیق نے جمعہ کو صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ اگر عمران خان طالبان سے مذاکرات کے حامی ہیں تو حکومت سے بات چیت کیوں نہیں کر سکتے۔
’’عمران خان صاحب آج بھی طالبان سے مذاکرات حامی ہیں، تو حکومت سے مذاکرات کے آپ حامی کیوں نہیں ہیں۔ کیا ہم طالبان سے بھی گئے گزرے ہیں۔‘‘
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ اُن کی جماعت کے عمران خان کی پارٹی سے رابطے ہوئے ہیں اور مسلم لیگ (ن ) چاہتی ہے کہ دیگر سیاستدان اور جماعتیں بھی اس میں اپنا کردار ادا کریں۔
’’ہم کم از کم پاکستان کے یوم آزادی کے موقع پر (یکجہتی) کا پیغام دینا چاہیئے۔‘‘
عمران خان نے مئی 2013ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف 14 اگست کو اسلام آباد میں لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا ہے۔
جب کہ عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری کا بھی کہنا ہے کہ وہ ’انقلاب ریلی‘ کی تاریخ کا جلد اعلان کریں گے۔ اس صورت حال میں ملک میں سیاسی ہلچل میں اضافہ ہو گیا اور اب حکومت کی بھی کوشش ہے کہ بات چیت سے کوئی حل نکالا جائے۔
اُدھر وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے بھی ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ جمہوریت کی حامی سیاسی جماعتیں عمران خان اور طاہر القادری کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کریں گی کہ وہ اپنے مطالبات کے لیے احتجاج کی بجائے قانونی راستہ اختیار کریں۔
پرویز رشید کا کہنا تھا کہ حکومت انتخابات سے متعلق زیر التواء تنازعات کو جلد سے جلد نمٹانے کے لیے حزب مخالف کی تجاویز کا خیر مقدم اور اس ضمن میں پارلیمان میں قانون سازی کی حمایت کرے گی۔