رسائی کے لنکس

سیاسی بحران میں کیا فوج کوئی راستہ نکالے گی؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سپریم کورٹ کے جانب سے قومی اسمبلی کےڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو خلاف آئین قرار دیکر اسمبلیوں کو بحال کرنے اور تحریک عدم اعتماد کے لیے نو اپریل کو قومی اسمبلی کا اجلاس بلانےکے حکم کو بڑے پیمانے پر سراہا جا رہا ہے۔ اس کے باوجود مبصرین کی نظر میں غیر یقینی کی صورت ختم نہیں ہوئی۔

ماہرین کے خیال میں بے یقینی کی صورت حال نہ صرف برقرار ہے بلکہ ایسی ہے کہ اسکی دھند کے پار کچھ نظر نہیں آرہا کہ معاملات کہاں جاکر ٹھہریں گے۔ ایسے میں پاکستان کی فوج جو ملک کی 75سالہ تاریخ میں تقریبا 33برس تو براہ راست حکومت کر چکی ہے، اور باقی وقت سو یلین حکومتیں بھی پس پردہ اس کے اثر سے باہر نہیں رہ سکیں، وہ اسوقت بظاہر ملک کے سیاسی معاملات سے اپنا فاصلہ برقرار رکھے ہوئے ہے۔ بطور ادارہ وہ اس موقف پر قائم ہے کہ سیاست, سیاست دانوں کا کام ہے اور وہ سیاسی معاملات میں مداخلت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

پاکستان کی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ فوج کے اس موقف کا بڑا سبب ماضی سے حاصل کردہ سبق ہیں۔ لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ فوج اور اس سے تعلق رکھنے والے چونکہ پاکستان کے شہری ہیں اور یہ ملک کا سب سے زیادہ منظم ادارہ بھی ہے اس لیے یہ سوچنا کہ فوج ملک کے حالات اور اندرونی سیاسی اور آئینی بحرانوں سے لا تعلق ہو جائے گی, درست نہیں ہو گا۔

ریٹائرڈ فوجی افسر اور سیاسی اور دفاعی امور کے ماہر جنرل غلام مصطفیٰ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ملک جن حالات سے گزر رہا ہے، انہیں ڈر ہے کہ عدالتی فیصلے کے بعد بھی یہ بحران نہ صرف ختم نہیں ہو گا بلکہ بڑھے گا۔ ایسے میں اگر فوج حالات کو سنبھالنے کے لیے سامنے آتی ہے تو بلا شبہ نکتہ چینی تو بہت زیادہ ہو گی، لیکن اسے آنا پڑے گاتا کہ دوسرے اداروں کے ساتھ مل کر اور فریقین کو بٹھا کر مسئلے کو حل کرائے اور ثالثی کی کوئی صورت نکالے ورنہ حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے۔

پی ٹی آئی کی حکومت کے آغاز میں حکومت اور فوج کے تعلقات بہت اچھے تھے۔ اور دونوں جانب سے بار بار کہا جاتا رہا کہ حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں۔ اور بظاہر نظر بھی یہ ہی آتا تھا کہ سول ملٹری تعلقات ہموار ہیں لیکن پھر آئی ایس آئی کے سربراہ کے تقرر کے معاملے پر ان تعلقات میں خرابی شروع ہوئی۔ وزیر اعظم آئندہ چند ماہ جنرل فیض حمید کو اس عہدے پر برقرار رکھنا چاہتے تھے جبکہ فوج جنرل ندیم انجم کا تقرر چاہتی تھی۔ جنہوں نے آخر کار یہ منصب سنبھالا۔

پھر اس سال نومبر میں فوج کے موجودہ سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت کے اختتام پر نئے آرمی چیف کے تقرر ی کو وزیر اعظم عمران خان اور فوج کے درمیان اختلاف کا سبب بتایا جا رہا ہے۔ لیکن جنرل غلام مصطفیٰ کہتے ہیں کہ اس معاملے پر اختلاف کا امکان اس لیے نہیں ہے کہ ابھی اس میں وقت باقی ہے اور یہ فیصلے اتنے قبل از وقت نہیں ہوتے۔

لیکن مبینہ ’دھمکی آمیز‘ خط کے بارے میں جو حکومت نے قومی سلامتی کی کمیٹی کے اجلاس میں پیش کیا اور جس کو بنیاد بناکر تحریک عدم اعتماد پر اسمبلی میں ووٹ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی، پس پردہ اختلافات کے باوجود فوج اور حکومت ایک صفحے پر نظر آئے۔ فوج کے ترجمان نے واضح انداز میں کہا کہ جو موقف کمیٹی کے اعلامیے میں اختیار کیا گیا ہے وہی فوج کا بھی موقف ہے۔

تاہم وزیر اعظم عمران خان نے امریکہ سے متعلق جو موقف اپنایا ہے، چیف آف آرمی سٹاف نے اسلام آباد سیکورٹی ڈائلاگ کے موقع پر اس سے مختلف نکتہ نظر پیش کیا۔

بیشتر ماہرین کا خیال ہے کہ یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ سیاست میں فوج کا عمل دخل بالکل ختم ہو گیا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگار سلمان عابد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فوج کی جانب سے جیسے پہلے کھلم کھلا مداخلت ہوتی تھی وہ اب نہیں ہے اور اس نے تاریخ سے سبق سیکھا ہے اس لیےاس نے فاصلہ رکھنے کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔

ماہرین کا خیال ہے اورالیکشن کمیشن نے بھی کہہ دیا ہےکہ نوے دن میں انتخابات نہیں کرائے جا سکتے۔ایسے میں ماہرین اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ سیاسی اختلافات جو ایک طرح سے اب سیاسی دشمنی میں بدل چکے ہیں , مزید گہرے ہو سکتےہیں۔ اس سے ملک میں عدم استحکام بڑھ سکتا ہے اور پہلے ہی سے بد حال معیشت مزید مشکلات کی شکار ہو سکتی ہے۔ا فہام و تفہیم کی کوئی راہ نہ نکل سکی تو سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ پھر فوج کا غیر متعلق رہنا ممکن نہ رہے گا۔

لیکن انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے بریگیڈیر سعد نذیر کہتے ہیں کہ وہ دور اب گزر چکا ہے جب فوج اقتدار سنبھالتی تھی یا آئین کو توڑا جاتا تھا۔ان کے خیال میں اب ایمرجنسی نافذ کرنا بھی ممکن نہ ہو گا اور فوج زیادہ سے زیادہ سیاسی جماعتوں کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرسکتی ہے۔

اگر فوج ثالثی کے لیے تیار ہوئی تو کون اس ثالثی کو قبول کرے گا اور کون نہیں، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ اس وقت متحارب سیاسی جماعتوں کا پارلیمان اور آئین کی بالادستی کو یقینی بناتے ہوئے اگلے الیکشن کی طرف بڑھنا ہی اس محاذ آرائی کا جمہوری حل نظر آتا ہے۔

XS
SM
MD
LG