وزیراعظم نواز شریف کی انتظامیہ اور حزب اختلاف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف میں اختلافات سے ملکی سیاسی ماحول میں پیدا ہونے والے تناؤ میں روزبروز اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کی طرف سے دو قانون سازوں نے بدھ کو الیکشن کمیشن میں ایک درخواست دائر کی جس میں مختلف مقدمات و واقعات بیان کرتے ہوئے کمیشن سے پوچھا گیا کہ کیا ان تمام شواہد کی روشنی میں نواز شریف پارلیمان کی رکنیت کے اہل ہیں۔
تحریک انصاف کے قانون دان مراد سعید نے کمیشن میں درخواست جمع کروانے کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ وزیراعظم کے خلاف اس قانونی کارروائی میں ان کی قیادت نواز شریف کے ذاتی معاملات کو حصہ بنانے کی خواہاں نہیں۔
’’وہ قوم سے جھوٹ بولتے رہے کہ ملک چھوڑنے کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا مگر بعد میں کہا کہ ہوا ہے۔ پھر مہران بنک اسکینڈل اور اصغر خان کیس جس میں انہوں نے آئی جے آئی بنانے کے لیے پیسے لیے۔ تو لہذا ہم سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم میاں نواز شریف نااہل ہو سکتے ہیں۔‘‘
ادھر وزیراعظم نے اپنے سیاسی اتحادی مولانا فضل الرحمان سے اسلام آباد میں ملاقات کی جس میں عہدیداروں کے مطابق عمران خان کی طرف سے اعلان کردہ آئندہ ماہ کی احتجاجی ریلی کے تناظر میں سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی ترجمان مشاہداللہ خان نے عمران خان کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ’’ آپ کو الیکشن ہارنا تھا۔ تمام دنیا کے سروے انتخابات سے پہلے یہی جائزے پیش کر رہے تھے۔"
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مرکزی ترجمان جان اچکزئی کا وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ دونوں رہنماؤں کی نظر میں عمران خان اور ان کے سیاسی اتحادیوں کی طرف سے پیدا کردہ سیاسی ہلچل سے شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرکے آئے قبائلیوں کے لیے اقدامات و کوششیں متاثر ہورہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جمعیت کے سربراہ نے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ سے بھی ملاقات کی جس میں پیپلزپارٹی کے رہنما نے مولانا فضل الرحمان کو آئینی ترمیم کے ذریعے حکومت کی مدت پانچ سے چار سال کم کرنے کی تجویز پیش کی۔
جان اچکزئی کے مطابق خورشید شاہ نے حکمران جماعت کے اتحادی مولانا فضل الرحمان سے ملاقات میں انتخابی عمل سے متعلق تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کے سربراہ کے لیے عدالت عظمیٰ کے حاضر سروس یا سابق جج کی شرط کو ختم کیا جائے بلکہ دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے اہل و اچھی شہرت رکھنے والے افراد کی خدمات سے بھی استعفادہ کیا جائے۔
’’اس میں کوئی قباحت نہیں، اگر حکومت کے اہداف حاصل کرنے کی حد پانچ سے چار سال ہو جائے تو اس طرح احتساب کا عمل تیز ہو جائے گا۔ دنیا میں کئی ملکوں میں حکومت کی مدت چار سال ہے۔ میری ذاتی رائے میں اگر اس پر سیاسی اتفاق رائے ہو جائے۔ تو اس سے پارلیمان سے باہر کو سیاسی حل تلاش کرنے کی کوشش کا مداوا ہو سکے۔‘‘
یاد رہے کہ عمران خان اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری انتخابات میں دھاندلی، اس کے خلاف ان کے بقول غیر موثر و ناقص تحقیقاتی کے عمل اور الیکشن کمیشن کی تشکیل سے متعلق اعتراضات پر احتجاج کر رہے ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف نے بھی حال ہی میں قومی اسمبلی کے اسپیکر کو انتخابی اصلاحات کے لیے ایک کمیٹی بنانے کا کہا تھا اور مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق بہت جلد تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل 33 رکنی کمیٹی کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا جائے گا۔