پاکستان میں انسانی حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لیے صدر آصف علی زرداری نے ’’قومی کمیشن برائے انسانی حقوق‘‘ کے قیام سے متعلق مسودے پر دستخط کر دیے ہیں۔
پارلیمان سے منظور شدہ اس آئینی مسودے پر صدرِ مملکت کے حتمی دستخط کی تقریب بدھ کو کراچی میں منعقد ہوئی، جس کے بعد یہ مسودہ باضابطہ طور پر قانون بن گیا ہے۔
صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر نے صحافیوں کو بتایا کہ اس پیش رفت کے بعد 1993ء کے ’’پیرس ڈیکلریشن‘‘ کے تحت پاکستان میں غیر جانبدار انسانی حقوق کمیشن کے قیام کی شرط بھی پوری ہو گئی ہے۔
’’موجودہ صورت حال میں یہ کوئی معمولی کامیابی نہیں کیوں کہ پاکستان شدت پسندی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی شکایات بھی منظر عام پر آ رہی ہیں۔‘‘
اُنھوں نے بتایا کہ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کا صدر دفتر اسلام آباد میں ہوگا اور سربراہ سمیت اس ادارے کے 10 اراکین ہوں گے، جب کہ کم از کم دو خواتین اراکین کا ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔
کمیشن کے رکن کی عمر کم از کم 40 برس ہونی چاہیئے اور اُسے انسانی حقوق سے متعلق اُمور سے واقفیت ضروری ہے۔ کسی بھی رکن کی تعیناتی چار سال کے لیے ہو گی اور اس میں صرف ایک مرتبہ توسیع کی کنجائش رکھی گئی ہے۔
کمیشن کے سربراہ اور اراکین کی تعیناتی کے سلسلے میں وزیر اعظم اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف باہمی مشاورت سے تین، تین نام تجویز کریں گے، جب کہ حتمی چناؤ کا اختیار اس سلسلے میں قائم پارلیمانی کمیٹی کو ہوگا۔
کمیشن کو انسانی حقوق کی خلاف وزری سے متعلق کسی بھی واقعے کا از خود نوٹس لینے کا اختیار ہے جب کہ کوئی بھی متاثرہ شخص خود یا اپنے کسی نمائندے کے ذریعے درخواست دائر کر سکتا ہے۔
کمیشن کے اراکین یا اُن کا نامزد کردہ شخص ملک میں کسی بھی جیل یا حکومت اور اس کے اداروں (بشمول خفیہ ایجنسیوں) کی جانب سے مشتبہ افراد کو تحویل میں رکھنے کے لیے زیر استعمال عمارت کا دورہ کر سکے گا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کے زیرِ حراست افراد کو اُن کے حقوق حاصل ہیں یا نہیں۔
’’کمیشن دہشت گردی سمیت اُن معاملات کا بھی جائزہ لے گا جس سے انسانی حقوق سلب ہوتے ہیں۔‘‘
فرحت اللہ بابر نے بتایا کہ کمیشن معاشرے میں انسانی حقوق سے متعلق آگاہی کے فروغ کے لیے بھی کوششیں کرے گا۔
اس کی مرتب کردہ سالانہ اور خصوصی رپورٹیں مرکزی حکومت کو پیش کی جائیں گی جب کہ ان کا پارلیمان میں بھی جائزہ لیا جائے گا۔