رسائی کے لنکس

امریکی کانگریس میں بلوچستان پر بحث مسلسل ہدف تنقید


امریکی کانگریس میں بلوچستان پر بحث مسلسل ہدف تنقید
امریکی کانگریس میں بلوچستان پر بحث مسلسل ہدف تنقید

صوبہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر امریکی کانگریس میں کی جانے والی بحث پر پاکستان میں تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔

پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں جمعہ کو حزب اقتدار اور حزب مخالف سے تعلق رکھنے والے اراکین نے جہاں اس بحث کو ملک کے اندرونی معاملات میں ’’غیر ملکی مداخلت‘‘ قرار دے کر اس کی سخت مذمت کی، وہیں اس امر پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ تمام تر دعووں کے باوجود صوبائی اور وفاقی حکومتیں بلوچستان میں امن و امان کی بحالی اور بلوچ عوام کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام دیکھائی دیتی ہیں۔

حکمران اتحاد میں شامل عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی رکن اسمبلی بشریٰ گوہر نے قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے لیے یہ امر باعث تکلیف ہے کہ بلوچستان کے معاملے پر جو بحث امریکی کانگریس کی کمیٹی میں ہوئی ہے وہ دراصل پاکستانی پارلیمان کی متعلقہ کمیٹی میں ہونی چاہیئے تھی۔

’’بلوچستان میں جو ہو رہا ہے اُس (کے سدِباب) کے لیے یہاں کی پارلیمانی کمیٹیاں موثر کارروائی نہیں کر رہی ہیں۔ ہمیں اس معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھنا ہوگا۔‘‘

حکمران پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ہمایوں عزیز کرد نے اپنی تقریر میں متنبہ کیا کہ اگر بلوچستان میں فرینٹیر کور (ایف سی) اور ریاست کے خفیہ اداروں کے کردار کو ختم نہ کیا گیا تو صورت حال قابو سے باہر ہو جائے گی۔

’’کوئی بھی بلوچستان کے بارے میں نہیں سوچتا ہے، کوئی بھی کمیٹی بنائی جائے اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا ہے … بلوچستان میں بیرونی مداخلت ہو رہی ہے اور اگر اس پر توجہ نہیں دینی ہے تو ہمیں بتائیں تاکہ ہم خود اپنا کوئی راستہ اختیار کریں، ہم نا یہاں کے رہیں گے نا وہاں کے رہیں گے۔‘‘

اراکین پارلیمان کی طرف سے بلوچستان کے بارے میں اٹھائے گئے سوالات کا جواب دیتے ہوئے ایوان میں موجود وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے کہا کہ وہ صوبے کے حالات پر ممبران کو آئندہ ہفتے ایک مفصل بریفنگ دیں گے اور ان اقدامات سے آگاہ کریں گے جو امن وامن کی بہتری کے لیے کیے جارہے ہیں۔

بعد ازاں پارلیمان کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا کہ بلوچ جنگجوایک تیسرے قوت کی مدد سے بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کی سازش کررہے ہیں اور اس کا ثبوت وہ جدید اسلحہ، مواصلات کا سامان اور بھاری رقوم ہیں جو انھیں ان تخریبی کارروائیوں کے لیے فراہم کی جارہی ہیں۔

انھوں نے فرنٹیر کور اور دیگر سلامتی کے اداروں کا دفاع کرتے ہوئےے کہا کہ بلوچستان میں ہونے والی عام شہریوں کی ہلاکتوں میں سکیورٹی فورسز ملوث نہیں بلکہ ان کے بقول یہ ایک تیسری قوت کی کاروائی ہے جس کی کوشش ہے کہ بلوچستان پاکستان کا حصہ نہ رہے۔

وزیر داخلہ نے دعوی کیا کہ کراچی میں براہمداغ بگٹی کی بہن کے قتل میں جو گولیاں استعمال ہوئی ہیں وہ پاکستان میں نہیں بنتیں اور تحقیقاتی ادارے یہ سراغ لگانے کی کوشش کررہے ہیں کہ یہ گولیاں کس ملک میں بنیں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس کی تفصیلات وہ پارلیمان کے آئندہ ہفتے ہونے والے اجلاس میں بتائیں گے۔

ایک روز قبل وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے کہا تھا کہ امریکی کانگریس کی ذیلی کمیٹی کی جانب سے صوبہ بلوچستان کی صورت حال پر کرائی گئی سماعت پاکستان کے لیے باعث تشویش ہے۔ ’’ہم نے واشنگٹن اور اسلام آباد میں متعلقہ امریکی حکام سے رابطہ کرکے اُنھیں اپنے تحفظات سے آگاہ کر دیا ہے۔‘‘

ادھر امریکی انتظامیہ نے کانگریس کی کمیٹی میں بلوچستان کے معاملے ہپر بحث سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ صوبے میں تمام فریقین کو اپنے اختلافات ’’پُرامن اور مستند سیاسی عمل‘‘ کے ذریعے ملک میں رہتے ہوئے تلاش کرنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکہ میں پاکستان کی سفیر شیری رحمٰن نے کانگریس کے اراکین اور اوباما انتظامیہ کے عہدے داروں سے اپنی ملاقاتوں میں کہا ہے کہ بلوچستان پر کرائی گئی سماعت ’’ناقابل قبول‘‘ ہے اور اس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد سازی کی کوششوں کو نقصان پہنچنے گا۔

XS
SM
MD
LG