گزشتہ روز جے یو آئی کی حکمراں اتحاد سے علیحدگی نے پاکستان میں سرد موسم کو بھی گرما دیا اور بدھ کو بھی سیاسی درجہ حرارت انتہائی عروج پر رہا ۔ حکمراں جماعت پیپلزپارٹی ایک جانب تو روٹھوں کو منانے کے لئے کوشاں رہی تودوسری طرف اس کی جانب سے نئے اتحادیوں کی تلاش بھی جاری ہے۔
گزشتہ روز حکمراں اتحاد سے جے یو آئی کی علیحدگی کے فوراً بعد پیپلزپارٹی کی جانب سے مولانا فضل الرحمن کو منانے کی کوششیں شروع کر دی گئیں تھیں اور اس سلسلے میں قیوم سومرو نے مولانا سے ملاقات بھی کی تاہم کوئی پیش رفت سامنے نہ ہوسکی ۔ بدھ کو پی پی کی جانب سے مولانا فضل الرحمن کو منانے کی ایک اور کوشش کی گئی جب وفاقی وزیر محنت و افرادی قوت خورشید شاہ کو مولانا سے ملاقات کیلئے بھیجا گیا تاہم نتیجہ گزشتہ روز جیسا ہی سامنے آیا ۔
اگر چہ خورشید شاہ نے اس ملاقات کو انتہائی مثبت قرار دیا اور صحافیوں سے بات چیت کے دوران امید ظاہر کی کہ وہ جلد جے یو آئی کو حکمراں اتحاد میں واپس لے آئیں گے لیکن ان کی باڈی لینگویج کچھ اور ہی کہہ رہی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ جے یو آئی کے تحفظات دور کرنے کیلئے ہم تیار ہیں تاہم مولانا فضل الرحمن نے کچھ دیر بعد میڈیا کو بتایا کہ وہ اپنے اصولی موقف پر قائم ہیں اور تحفظات دور کرنے کا وقت گزر چکا ہے ۔
حکمران جماعت نے ہمیشہ ہماری ترجیحات کو پس پشت ڈالا لیکن پھر بھی ہم مفاہمتی پالیسی پر قائم رہے، ا گر چہ اس کیلئے ہمیں تنقید بھی برداشت کرنی پڑی ۔ انہوں نے کہا کہ اگر اعظم سواتی نے ڈسپلن کی خلاف ورزی کی ہے تو وزیر اعظم نے بھی ان کی برطرفی سے متعلق ہمیں اعتماد میں نہ لیکر ڈسپلن کی خلاف ورزی کی ہے ۔
ادھر جے یو آئی کی حکومت سے علیحدگی متحدہ مجلس عمل کی بحالی میں اہم سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے ۔ آج سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد اور جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمن کے درمیان ملاقات بھی ہوئی جس میں مولانا کا کہنا تھا کہ اب حکومت میں واپسی کا کوئی امکان نہیں ۔ اس سے قبل جماعت اسلامی سمیت دیگر مذہبی جماعتوں کا مطالبہ تھا کہ جے یو آئی اگر متحدہ مجلس عمل میں آنا چاہتی ہے تو پہلے اسے حکومت کے اتحاد سے علیحدگی اختیار کرنا ہو گی ۔
دوسری جانب پیپلزپارٹی کے لئے یہ بات باعث اطمینان ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ نے اسے ذوالفقار مرزا کے بیان سے متعلق وضاحت پیش کرنے کے لئے دس دن کی مہلت دی ہے ۔ صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے دو روز قبل ایک پریس کانفرنس میں الزام لگایا تھا کہ دہشت گردی کے الزام میں گرفتار دہشت گردوں میں سے بعض کا تعلق ایم کیو ایم سے ہے ۔ رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد رضا ہارون نے صحافیوں کو بتایا کہ پیپلزپارٹی سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ دس روز کے اندر اندر وضاحت کرے کہ ذوالفقار مرزا کا بیان پارٹی پالیسی ہے یا ان کا ذاتی خیال ۔ بصورت دیگر دس روز بعد اراکین کی رائے کے بعد حکومت سے الگ ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کیا جائے گا ۔
انہوں نے کہا کہ ذوالفقار مرزا کا بیان سندھ کو تقسیم کرنے کی سازش تھی اور ہم ایسی سازش کو کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔ رضا ہارون نے یہ بھی کہا کہ متحدہ ایک جمہوری جماعت ہے اور پیپلزپارٹی کی جانب سے نظر انداز کیے جانے کے باوجود ہم اتحاد توڑنا نہیں چاہتے۔ جے یو آئی کا اتحاد سے الگ ہونے کا فیصلہ اس کا جمہوری حق تھا ۔
یاد رہے کہ یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا جب پیپلزپارٹی سندھ کے رہنماؤں کی جانب سے ایم کیو ایم کے حوالے سے متنازعہ بیانات سامنے آئے ۔ اس سے قبل بھی متعدد وزراء کھل کر ایم کیو ایم پر گرج چکے ہیں اور جس کا دوسری جانب سے بھر پور جواب بھی دیا گیا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آج جب رابطہ کمیٹی کا اجلاس جاری تھا اسی وقت وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ گورنر ہاؤس پہنچ گئے جہاں انہوں نے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد سے ملاقات کی ۔ رپورٹس کے مطابق اس موقع پر وزیر اعلیٰ نے متحدہ کے تمام تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی ۔
اس تمام تر صورتحال میں پیپلزپارٹی ممکنہ سیاسی بحران سے نمٹنے کیلئے بالکل تیار نظر آرہی ہے اور اس نے تمام آپشنز کو عملی جامعہ پہنانا شروع کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں پی پی کے شریک چیئرمین اور صدر پاکستان آصف علی زرداری نے سب سے پہلا جال مسلم لیگ (ق) کے ہم خیال گروپ پر پھینکا تاکہ جے یو آئی سے اتحاد میں پیدا ہونے والا خلا پر کیا جائے ۔ انہوں نے سلیم سیف اللہ کو فون کیا اور ملاقات کیلئے مدعو کیا جس کے نتیجے میں ق لیگ کے ہم خیال گروپ نے اسٹیرنگ کمیٹی کا اجلاس طلب کر لیا ۔ بعدازاں سلیم سیف اللہ نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ حکمران جماعت سے ملاقات کا فیصلہ پارٹی مشاورت سے کریں گے تاہم انہوں نے وزیر اعظم کے فون کا خیر مقدم کر کے ایک مثبت اشارہ دے دیا ۔
دوسری جانب میڈیا رپورٹس کے مطابق وفاقی وزیر قانون بابر اعوان بھی مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت اور ان کے بھائی پرویز الہی سے رابطے میں ہیں ۔ یاد رہے کہ بابر اعوان کے ذریعے مسلم لیگ ق سے پیپلزپارٹی کا یہ کوئی پہلا رابطہ نہیں ۔مئی دو ہزار نو سے وہ مختلف اوقات میں چوہدری برادران سے رابطے میں ہیں ۔ اکتوبر دو ہزار دس میں ہونے والی ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر بابر اعوان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ق) کی قیادت کے ساتھ گزشتہ ڈیڑھ برس سے رابطے میں موجود ہیں ۔ مبصرین جانتے ہیں کہ پی پی پی اور (ق) لیگ کے درمیان پارلیمانی سطح پر پہلے سے غیر اعلانیہ تعاون چل رہا تھا اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے اس تعاون کی بدولت دونوں جماعتوں نے حالیہ ضمنی انتخابات میں گوجرانوالہ اور بہاولپور میں نواز لیگ کے امیدواروں کو شکست دی تھی۔اس کے علاوہ بابر اعوان کا یہ بھی کہنا تھا کہ (ق) لیگ سے مستقبل میں اتحاد کے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی اور جمہوریت کی ڈکشنری میں مایوسی نام کی کوئی چیز نہیں۔
سیاسی پنڈتوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر مسلم لیگ ق حکمران اتحاد میں شامل ہو جاتی ہے تو پھرایک مضبوط اتحاد سامنے آ سکتا ہے اور سینیٹ اور قومی اسمبلی میں اکثریت ان کے پاس آ جائے گی۔ مبصرین کا یہ بھی خیال ہے کہ اگر دونوں جماعتوں کا اتحاد بن جاتا ہے تو مسلم لیگ (ن) کی پنجاب حکومت سے بھی چھٹی ہو سکتی ہے جہاں وہ پیپلزپارٹی کی اتحادی ہے اور ان تمام باتوں کی سچائی آج بابر اعوان کے اس بیان سے بھی ظاہر ہوتی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ پنجاب میں آئندہ وزیر اعلیٰ پیپلزپارٹی کا ہو گا ۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ دونوں جماعتوں کو قریب لانے میں بنیادی کردار ڈاکٹر بابر اعوان اور گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے ادا کیا تاہم صدر زرداری کے قریبی بااعتماد ساتھی ڈاکٹر قیوم سومرو کے بھی مسلم لیگ (ق) کے ساتھ قریبی رابطے موجود تھے اور ان کے پاس ایوان صدر اور ایوان وزیر اعظم سے بھر پور اعتماد موجود تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پنجاب حکومت کو گزشتہ کئی عرصہ سے تگنی کا ناچ نچایا ہوا ہے ۔
یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ اگر موجودہ صورتحال میں ق لیگ پیپلزپارٹی کا ساتھ دیتی ہے تو حالیہ صورتحال میں اس کی ساکھ کو بھی سخت نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ اگر چہ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد (ق) لیگ کو قاتل لیگ کہا تھا تاہم اب پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ سیاست میں کوئی لفظ بھی حرف آخر نہیں جبکہ (ق) لیگ والوں کا اس حوالے سے یہ کہنا ہے کہ ان کی قیادت نے ہمارے در پر آ کر غلطی تسلیم کر لی ہے ۔
پاکستان میں اس سیاسی بھونچال کی لپیٹ میں کون ، کون آئے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا تاہم ایک عام آدمی اس تمام تر صورتحال میں سخت پریشان نظر آ رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اختلافات سے سب سے زیادہ نقصان اسے ہوتا ہے ۔ حکمرانوں کو اپنے مفادات کے بجائے دہشت گردی ، مہنگائی ، بے روزگاری اور دیگر لاتعداد مسائل کے حل پر دینی چاہیے ، بصورت دیگر وہ آنے والے وقت کے احتساب سے نہیں بچ سکیں گے ۔